پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے خود کو پارٹی کے کیسز سے الگ کر لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ پی ٹی آئی کور کمیٹی کی جانب سے کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس خود کو پارٹی کیسز سے الگ کریں۔ پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہاکہ اس معاملے پر سپریم کورٹ سے کس وقت رجوع کرنا ہے اس کا حتمی فیصلہ لیگل ٹیم کرے گی۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا 13 رکنی فل کورٹ تشکیل دیا ہے جو کیس کی سماعت کل 3 جون بروز پیر کو کرےگا۔
مزید پڑھیں
وی نیوز نے قانونی ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پی ٹی آئی کے چیف جسٹس پر اعتراض عائد کرنے کے کیا اثرات ہوں گے؟
پی ٹی آئی خبروں میں رہنے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے، حسن رضا پاشا
سابق چیئرمین پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی کے اس اعتراض کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا، جو بھی کیسز اس وقت سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کی عدالت میں زیر سماعت ہیں وہ اسی طرح چلیں گے، پی ٹی آئی ہر کچھ دنوں کے بعد خبروں میں رہنے کے لیے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے تاکہ نان ایشو کو ایشو بنایا جائے۔
حسن رضا پاشا نے کہاکہ ماضی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے موجودہ چیف جسٹس کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا جس سلسلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کو عدالتوں کے سامنے پیش ہونا پڑا، اسی وجہ سے پی ٹی آئی اب سمجھ رہی ہے کہ شاید چیف جسٹس ان کے خلاف انتقامی کارروائی کریں گے، حالانکہ ایسا کچھ نہیں۔ چیف جسٹس نے اگر انتقامی کارروائی کرنا ہوتی تو وہ کبھی عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت نہ کرتے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس سننے سے مفادات کا ٹکراؤ نظر نہیں آرہا، کوئی ایسی چیز نظر نہیں آرہی کہ جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ چیف جسٹس خود کوپی ٹی آئی کیسز سے الگ کرلیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نیب ترامیم والے کیس سے بھی الگ ہوگئے تو کیا ہوگا؟
حسن رضا پاشا کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جب صدارتی ریفرنس دائر ہوا تھا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے ہٹایا گیا تو جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سردار طارق مسعود کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت نیب ترامیم کا کیس بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اور نیب قانون میں 90 فیصد سے زیادہ ترامیم پی ٹی آئی نے کی ہیں، اگر قاضی فائز عیسیٰ سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس کیس سے بھی الگ ہو جائیں تو یہ پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ ہے۔
کسی جج پر اعتراض کرنے کے لیے ٹی وی پر بیان دینا کافی نہیں ہوتا، سید محمد طیب شاہ
اسلام آباد بار کونسل کے سابق صدر سید محمد طیب شاہ نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ قاضی فائز عیسیٰ نے اب تک کسی بھی کیس میں جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کو ایسے اعتراض عائد نہیں کرنا چاہیے، اعتراض عائد کرنے کے لیے صرف ٹی وی پر بیان نہیں دینا ہوتا بلکہ عدالت میں باقاعدہ درخواست جمع کرانا ہوتی ہے۔
سید محمد طیب شاہ نے کہاکہ یہ کہنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کوئی بھی جج کسی بھی ایک پارٹی کے خلاف بغض رکھتا ہے، ایسے بیانات کا کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیسز اسی طرح چلتے ہیں کہ جیسے پہلے چل رہے ہوتے تھے، اور جج کیسز کو میرٹ پر سن کر میرٹ پر ہی فیصلہ دیتے ہیں۔ قانونی طور پر جج پر مکمل اعتماد کرنا چاہیے اور اعتراض بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
’پی ٹی آئی کو اعتراض کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘
انہوں نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رواں سال ستمبر تک چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز رہیں گے، انہوں نے ہی کیسز کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دینے ہیں، پی ٹی آئی کی جانب سے ایسے اعتراض عائد کرنے سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی پی ٹی آئی کا اعتراض کسی بھی عدالتی کارروائی میں اثرانداز ہوگا۔