وزیر صحت پنجاب خواجہ عمران نذیر نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کو ہتک عزت بل سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، چاہے پیپلزپارٹی تو کیا پورا پاکستان ہی مخالف کیوں نہ ہو۔
وی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مریم نواز نے جو جرات کی ہے اس پر انہیں قائم رہنا چاہیے کیونکہ کوئی بھی اگر کسی پر الزام لگاتا ہے تو اس کا ثبوت بھی مہیا کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں
عمران نذیر نے کہاکہ صحافتی کمیونٹی کو ہتک عزت بل کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ ’اب آزادی رائے کے نام پر کسی کو قتل کرنے کا لائسنس تو نہیں دیا جاسکتا، جس نے الزام لگانا ہے وہ ثبوت لے کر آئے اگر اس کے ثبوت نہیں ہے تو کسی پر بھی الزام لگانے کی جرات نہیں کرنی چاہیے‘۔
عمران خان پر کیسز بنانے کے لے پنجاب حکومت کے پاس ثبوت موجود ہیں
صوبائی وزیر صحت نے کہاکہ عمران خان کے بیانات کے حوالے سے جو کیس پنجاب کابینہ کے سامنے آیا اس پر بڑی مفصل بحث ہوئی ہے اور ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں۔
انہوں نے کہاکہ شیخ مجیب الرحمان اور بنگلا دیش کا نام لے لے کر لوگوں کو باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ تیار کیا جارہا ہے اور ذہن سازی کی جارہی ہے۔
خواجہ عمران نذیر نے کہاکہ 9 مئی کا واقعہ بھی ایسے ہی ہوا تھا، جب تک ہم ماسٹر مائنڈ تک نہیں پہنچ جاتے پاکستان کے ادارے خطرے میں رہیں گے اور ملکی سلامتی پر بھی سوالیہ نشان رہے گا۔
’نیب کو ختم ہونا چاہیے‘
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ عمران نذیر نے کہاکہ نیب جیسے ادارے کو ختم کر دینا چاہیے، پاکستان کی بربادی اسی سلیکٹڈ احتساب سے ہوئی ہے، ہمارے سے بھی غلطیاں ہوئیں ہم کوئی فرشتے نہیں ہیں لیکن اس نیب کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
’دوبارہ نواز شریف صحت کارڈ لا رہے ہیں‘
صوبائی وزیر صحت نے کہاکہ صحت کارڈ پنجاب کے اندر چل رہا ہے، بند ہونے کی خبریں بے بنیاد ہیں، ہم اب اس کو مزید بہتر کرنے جارہے ہیں۔ ’تحریک انصاف کی حکومت نے جو صحت کارڈ متعارف کروایا تھا اس میں امیر، غریب سب کو یہ سہولت میسر تھی مگر اب ایسا نہیں ہوگا، اب صحت کارڈ پر علاج صرف غریب کا ہوگا‘۔
عمران نذیر نے کہاکہ ہم دوبارہ نواز شریف صحت کارڈ لارہے ہیں اور اس کے ذریعے سے تمام بیماریوں کا علاج ممکن ہوسکے گا۔
انہوں نے کہاکہ نواز شریف صحت کارڈ ان پرائیویٹ اسپتالوں میں چلے گا جو ہیلتھ کیئر کمیشن سے رجسٹرڈ ہوں گے۔ ’2،2 کمروں پر بنائے گئے اسپتالوں میں صحت کارڈ بند کردیا ہے‘۔
انہوں نے کہاکہ سرکار کے تمام اسپتالوں میں صحت کارڈ چلے گا جبکہ پہلے اور اب والے صحت کارڈ میں یہ فرق ہوگا کہ پہلے مخصوص بیماریوں کا علاج کارڈ پر ہورہا تھا تاہم اب ہر قسم کی بیماری کا علاج کوئی بھی مستحق شخص نواز شریف صحت کارڈ کے ذریعے کروا سکے گا۔
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے دور میں صحت کے کل بجٹ سے زیادہ صحت کارڈ کا بجٹ رکھا ہوا تھا جو اس شعبے کے ساتھ زیادتی تھی۔
’شوکت خانم اسپتال کا آڈٹ ہونا چاہیے‘
ایک سوال کے جواب میں خواجہ عمران نذیر نے کہاکہ پاکستان کا پہلا اسٹیٹ آف دی آرٹ نواز شریف کینسر اسپتال ایک سال کے اندر کام شروع کردے گا۔ ’شوکت خانم اسپتال میرے خیال میں 100 بستر کا اسپتال ہے جس کو سب سے زیادہ چندہ ملتا ہے، ہماری اطلاع کے مطابق وہاں پر صرف 10 فیصد لوگوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے، 90 فیصد لوگ پیسے دے کر کینسر کا علاج کرواتے ہیں‘۔
انہوں نے کہاکہ 2014 میں شوکت خانم اسپتال کے آڈٹ کی بات ہوئی تھی کیونکہ جتنا اس اسپتال کے نام پر چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ ’جب آڈٹ کروانے کی بات ہوئی تو عمران خان کے لوگوں نے لاہور ہائیکورٹ سے حکم امتناعی لے لیا جو اب تک چل رہا ہے، اس سے لگتا تو یہی ہے کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے جس کی پردہ داری کی جارہی ہے‘۔
’قوم کو کام سے زیادہ ٹک ٹاک پسند ہے اس لیے ہم بھی اپنا کام وہاں دکھا رہے ہیں‘
عمران نذیر نے کہاکہ شہباز شریف اسپیڈ، محسن اسپیڈ کے بعد اب پنجاب میں مریم نواز اسپیڈ کا دور ہے، پی ٹی آئی کی حکومت کچھ نہ کرکے ٹک ٹاک پر تشہیر کررہی ہوتی تھی، ہم تو باقاعدہ اچھا کام کرکے ٹک ٹاک پر لگاتے ہیں، عوام ٹک ٹک دیکھتے ہیں اس لیے وہاں پر اپنی کارکردگی کی تشہیر کرتے رہیں گے۔
’قید کے دوران میری بیرک میں لال بیگ چھوڑ دیے گئے‘
صوبائی وزیر صحت نے بتایا کہ مجھے عمران خان کے دور میں نیب حملہ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، ایک دن مجھے ٹارچر کرنے کے لیے میری بیرک میں لال بیگ چھوڑ دیے گئے اور اس دوران میں نہ کھڑا ہوسکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا۔ جبکہ وہاں اوپر ایک کیمرہ بھی لگایا گیا تھا جو یہ سب ریکارڈ کررہا تھا۔
انہوں نے کہاکہ قید کے دوران مجھے سونے کے لیے ایک چٹائی دی گئی، پہلے دن جس حوالات میں رکھا گیا اس میں واش روم تک نہیں تھا۔
عمران نذیر نے کہاکہ گرفتاری ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں، مجھے اور میرے بھائیوں کو 1995 میں بھی گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ ہم اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے احتجاج کرتے تھے۔
1995 میں جب عمران نذیر کو ہتھکڑی پہنائی گئی تو کیا ہوا؟
انہوں نے کہاکہ اس وقت میری عمر کم تھی اور جب ہتھکڑی پہنائی گئی تو ہاتھ اور کلائی چھوٹی ہونے کی وجہ سے وہ نکل جاتی تھی، پھر پولیس نے میری ٹانگ پر ہتھکڑی لگاتے ہوئے چارپائی سے باندھ کر حوالات میں بند کیا۔
عمران نذیر نے کہاکہ جب میثاق جمہوریت ہوا تو میرے جیسا کارکن خوش ہوا تھا کہ اب سیاسی ورکر گرفتار نہیں ہوں گے اور اب کوئی سیاسی قیدی نہیں ہوگا۔