’پاکستان میں ہائبرڈ نظام ہے‘، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں ریمارکس

پیر 3 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی لارجر بینچ نے کی، براہ راست سماعت کے دوران درخواست گزار وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے، ججز نے سوالات کیے اور ریمارکس دیے، جس کے بعد سماعت کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم ریمارکس

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایک مفروضے پہ چلتے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت سو نشستوں پر انتخابات لڑتی ہے اور ہر سیٹ پر ایک ووٹ سے ہار جاتی ہے تو جمہوریت کے روح سے وہ 100 کی 100سیٹیں ہاری ہے۔ وہ خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی، یہ ایک ہائبرڈ نظام ہے جیسا لکھا گیا ہے، کوئی ایسی جماعت بھی ہو سکتی ہے جس کو سب سے زیادہ ووٹ ملے لیکن وہ اقلیت میں چلی جائے، جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اس سارے تناظر کو سامنے رکھنا چاہیے۔

دیگر ججز کے اہم ریمارکس

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فیصل صاحب یہ سارا معاملہ عوام کا ہے، عوام کو ان کے حق نمائندگی سے محروم نہیں کیا جا سکتا تھا، اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا، عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام نے کسی آزاد امیدوار کو ووٹ نہیں دیا، عوام نے تو ایک پارٹی کو ووٹ دیا تھا، اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں۔ عوام نے کسی آزاد کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفیکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا ہے۔ اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہوچکی تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے نہیں روکا، الیکشن کمیشن کہہ سکتا تھا اس جماعت نے تو الیکشن نہیں لڑا، الیکشن کمیشن نے مگر ایسا نہیں کیا لوگوں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کو تسلیم کیا، جب 3 دن کا وقت گزر گیا اس کے بعد الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ کو تو مخصوص نشستیں نہیں ملنی، اب وہ لوگ کہہ سکتے ہیں آپ نے شمولیت کروائی اب میں اپنا حق مانگنے آیا ہوں۔ الیکشن کمشین پہلے شمولیت درست مانتا ہے بعد میں مخصوص نشستیں بھی نہیں دیتا، رکن اسمبلی کہہ سکتا ہے پہلے شمولیت سے روکا نہیں تو اب حق بھی دیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلے کے نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مس گائیڈ کیا گیا، آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں بھی شامل ہو سکتے تھے کوئی پابندی نہیں تھی۔

سماعت کا آغاز اور وکیل فیصل صدیقی کے دلائل

سماعت کا آغاز ہوتے ہی ‏سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی ایڈوکیٹ روسٹرم پر آگئے، فیصل صدیقی کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا اور گزشتہ سماعت کا عدالتی حکم نامہ پڑھ کر سنایا، اور کہا کہ یہاں 2مختلف درخواستیں عدالت کے سامنے ہیں، پشاور ہائیکورٹ میں ہماری حکومت کیخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر ہے، پشاور ہائیکورٹ کے آرڈر پر عمل نہ کرنے کیخلاف توہین عدالت کی درخواست تھی، سپریم کورٹ پہلی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ کا متعلقہ فیصلہ معطل کر چکی ہے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایک متفرق درخواست فریق بننے کی میں نے کنول شوزب کی جانب سے دی ہے، جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ فیصل صدیقی کو دلائل مکمل کرنے دیں پھر آپ کو بھی سنیں گے، کیس میں فریق مخالف کون ہیں؟ بینیفشری کون تھے جنہیں فریق بنایا گیا؟ فیصل صدیقی بولے کہ جن کو اضافی نشستیں دی گئیں وہ بینفشری ہیں، مجموعی طور پر 77 متنازعہ نشستیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اسمبلی کی کتنی اور صوبائی کی کتنی ہیں بریک ڈاون دے دیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی کی 55 نشستیں متنازعہ ہیں۔ خیبرپختونخوا سے متنازعہ مخصوص نشستیں 8، پنجاب سے 11 اور سندھ سے 1 ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایک جگہ 22 اور ایک جگہ 23 متنازعہ نشستوں کا ذکر کیا ہے۔

فیصل صدیقی نے تمام جماعتوں کی نشستوں کی تفصیل بتا دی

فیصل صدیقی نے کہا کہ سندھ میں 2متنازعہ نشستیں ہیں ایک پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اور دوسری ایم کیو ایم کو ملی ہے، پنجاب میں کل متنازعہ نشستیں 21 ہیں جبکہ مخصوص نشستوں کی کل تعداد 55 ہے، پنجاب میں 21 میں سے 19 نشستیں مسلم لیگ ن ، ایک پاکستان پیپلز پارٹی اور ایک استحکام پاکستان پارٹی کو ملی ہے۔

’خیبرپختونخوا میں متنازعہ نشستوں کی تعداد 20 ہے، 8 جمیعت علمائے اسلام اور 5 مسلم لیگ ن اور 5 پاکستان پیپلز پارٹی 1 پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین اور ایک عوامی نیشنل پارٹی کو ملی‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو بطور پارلیمانی پارٹی شو کیا ہے،الیکشن کمیشن نے ان کو آزاد امیدوار نہیں کہا بلکہ سنی اتحاد کونسل کی 82 نشستیں شو کی ہیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 3اقلیتوں کی متنازعہ نشستیں بھی دوسری جماعتوں کو دے دی گئی ہیں، چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو خیبر پختونخوا کو کے پی کے بولنے سے روک دیا اور کہا کہ خیبر پختونخوا کے لوگ اس نام سے بلائے جانے پر برا مناتے ہیں، یا دیگر صوبوں کے لیے بھی مخفف استعمال کریں یا ان کا بھی پورا نام لیں، فیصل صدیقی نے کہا کہ یاد دہانی کا بہت شکریہ میں خیال رکھوں گا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے اسفتسار کیا کہ ان دیگر جماعتوں نے اپنی نشستیں کتنی جیتی ہیں؟ فیصل صدیقی نے تمام جماعتوں کی نشستوں کی تفصیل بتا دی۔

پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کی مخالفت

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سب اضافی ملی ہوئی نشستیں رکھنا چاہتے ہیں، آپکی جماعت کا پورا نام کیا ہے؟ کامران مرتضیٰ بولے کہ ہماری جماعت کا نام جمیعت علما اسلام پاکستان ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ اگر آپ کی جماعت سے ف نکال دے تو کیا حیثیت ہوگی؟ وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ پارٹی کا لیڈر نکل جائے تو کسی کی کوٸی حیثیت نہیں رہتی۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کی جانب سے ریزرو سیٹوں کی فہرستیں دی تھیں لیکن ہمارا آفس سیل ہے، اس لیے یہاں جمع نہیں کرا سکے لیکن وہ فہرستیں الیکشن کمیشن کے پاس ہیں، چیف جسٹس بولے کہ ایسے نہ کریں اگر آپ اس سلسلے میں درخواست دے سکتے ہیں لیکن اس طرح کا بیان نہ دیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی نشان چھن جانے کے ایک سیاسی جماعت کا وجود ختم ہو جاتا ہے؟ کیا سیاسی جماعت کے باقی حقوق بھی سلب ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ جو تاثر دیا گیا کہ جنازہ نکل گیا، یہ تاثر درست تھا؟ کیا ایک سیاسی جماعت انتخابی نشان چھن جانے کے بعد اپنے امیدوار نامزد کر سکتی ہے؟

فل کورٹ میں بیٹھنے کا مزا اور تکلیف یہی ہے، جسٹس منیب اختر

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ہمارے سامنے ایک محدود سوال ہے، کیا مخصوص نشستیں ملنی چاہییں یا نہیں؟ جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ کیا ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ کیا پی پی ٹی آئی بدستور قائم تھی؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا تھا، پشاور ہائیکورٹ نے 10جنوی کو الیکشن کمشین کا حکم نامہ کالعدم قرار دیدیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ 22دسمبر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی، فیصل صدیقی بولے کہ الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ نے 13 جنوری کو ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انتخابی نشان واپس ہونے سے سیاسی جماعت تمام حقوق سے محروم ہوجاتی ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے فہرستیں جمع کرائیں لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیں، چیف جسٹس بولے کہ سوالات کو چھوڑیں اپنے طریقے سے جواب دیں، فیصل صدیقی نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ شکر ہے ابھی آپ نے سوال نہیں پوچھے۔  جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ میں بیٹھنے کا مزا اور تکلیف یہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کو آرٹیکل 218(3) کا حوالہ دینا بہت پسند ہے۔

ججز کے ریمارکس

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فیصل صاحب یہ سارا معاملہ عوام کا ہے، عوام کو ان کے حق نمائندگی سے محروم نہیں کیا جا سکتا تھا، اگر سنی اتحاد کونسل سے غلطی ہوئی تھی تو الیکشن کمیشن تصحیح کر سکتا تھا، عوام کو کبھی بھی انتخابی عمل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عوام نے کسی آزاد امیدوار کو ووٹ نہیں دیا، عوام نے تو ایک پارٹی کو ووٹ دیا تھا، اگر ایسا ہو جائے تو نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں گی سنی اتحاد کو نہیں۔ عوام نے کسی آزاد کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے نامزد افراد کو ووٹ دیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفیکیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں کوئی نشست نہیں جیتی تھی، الیکشن کمیشن کے احکامات میں کوئی منطق نہیں لگتی، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے سنی اتحاد الیکشن نہیں لڑی ساتھ ہی پارلیمانی جماعت بھی مان رہا ہے۔ اگر پارلیمانی جماعت قرار دینے کے پیچھے پی ٹی آئی کی شمولیت ہے تو وہ پہلے ہوچکی تھی۔

چیف جسٹس اور جسٹس منیب اختر کے درمیان جملوں کا تبادلہ

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں ہم اپنا فیصلہ کر لیں گے،آپ اپنے دلائل نہیں دینگے تو مجھے کیا سمجھ آئے گی کہ آپ کی جانب سے کیا لکھنا ہے، میرا خیال ہے فیصل صدیقی صاحب ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں۔

جسٹس منیب اختر بولے کہ یہ ایک غیرذمہ دارانہ بیان ہے، فل کورٹ میں ہر جج کو سوال پوچھنے کا اختیار اور حق حاصل ہے، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ فیصل صاحب آگے بڑھیں میں نے ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس قسم کا غیرذمہ دارانہ بیان تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے آزاد امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے نہیں روکا، الیکشن کمیشن کہہ سکتا تھا اس جماعت نے تو الیکشن نہیں لڑا، الیکشن کمیشن نے مگر ایسا نہیں کیا لوگوں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کو تسلیم کیا، جب 3 دن کا وقت گزر گیا اس کے بعد الیکشن کمیشن نے کہہ دیا آپ کو تو مخصوص نشستیں نہیں ملنی، اب وہ لوگ کہہ سکتے ہیں آپ نے شمولیت کروائی اب میں اپنا حق مانگنے آیا ہوں۔ الیکشن کمشین پہلے شمولیت درست مانتا ہے بعد میں مخصوص نشستیں بھی نہیں دیتا، رکن اسمبلی کہہ سکتا ہے پہلے شمولیت سے روکا نہیں تو اب حق بھی دیں۔

فیصل صدیقی بولے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، جسٹس امین الدین خان نے پوچھا کہ کیا آزاد امیدوار کے لیے لازمی ہے کہ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرے؟ آزاد امیدوار رجسٹرڈ سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے، مخصوص نشستیں خودکار نظام کے تحت تو نہیں مل سکتیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلے کے نشان والے فیصلے پر لوگوں کو مس گائیڈ کیا گیا، آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں بھی شامل ہو سکتے تھے کوئی پابندی نہیں تھی۔

چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ

جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس کے بعد چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پی ٹی آئی کی جانب سے نہیں بول سکتے، میرے قلم نے آدھے گھنٹے سے کچھ نہیں لکھا، آپ نے آدھے گھنٹے سے کچھ بھی نہیں لکھوایا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں پہلے حقائق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، آپ لکھ لیں کہیں قلم سوکھ نہ جائے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم حقیقت کو کیوں نہ دیکھیں، سنی اتحاد کونسل ہمارے سامنے اس لیے ہے کہ اس میں پی ٹی آئی کے جیتے لوگ شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل میں کتنا وقت لگے گا؟ فیصل صدیقی بولے کہ میں دلائل میں 2 سے 3 گھنٹے لوں گا اور کچھ دستاویزات پیش کروں گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ قانون کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے کسی جماعت کا الیکشن لڑنا ضروری نہیں، آزاد امیدوار بھی جماعت میں شامل ہوجائیں تو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں، ماضی میں ایک قانون آیا تھا کہ مخصوص نشستوں کے لیے الیکشن لڑنا اور 5 فیصد ووٹ لینا لازم تھا، وہ قانون بعد میں ختم کر دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا حقیقی پوزیشن یہی ہے؟ فیصل صدیقی بولے جی سارا تنازعہ یہی ہے، الیکشن کمیشن اس کے بعد سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کر چکا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں کینیڈا کی سپریم کورٹ میں بیٹھا ہوا تھا وہاں وکیلوں کے لیے ٹائمر لگا ہوا تھا ایک گھنٹے کا، میں حیران تھا کہ کیسے ایک گھنٹے میں دلائل بھی ختم ہوگئے اور ججز کے سوالات بھی، میں ان کے نظام سے بہت متاثر ہوا۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ میرے خیال سے وکیلوں کو تربیت کے لیے کینیڈا بھیجنا چاہیے۔ چیف جسٹس بولے پاکستان میں ہائبرڈ نظام ہے مکمل جمہوریت نہیں۔

اس سے قبل سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلہ کو معطل کر دیا تھا، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا تھا۔

واضح رہے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

خیال رہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے 13 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس مسرت ہلالی کے علاوہ تمام ججز موجود ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی بیماری کے باعث بینچ کا حصہ نہیں بن سکی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp