افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک بار پھر عالمی برادری سے افغانستان پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ دہراتے ہوئے امریکا سمیت تمام اقوام کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
الجزیرہ پر ’رائے‘ کے ضمن میں شائع اپنی ایک تحریر میں افغان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بیشتر متنازع امور پر کوئی واضح موقف اپنائے بغیر افغانستان میں بحران کا ذمہ دار امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو ٹھہرایا ہے۔
’افغانستان میں جاری معاشی بحران کی بنیادی وجہ امریکہ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیاں اور بینکنگ پابندیاں ہیں جس سے ملک میں جاری انسانی بحران سے نمٹنے کی ہماری کوششوں میں رکاوٹ اور تاخیر ہوتی ہے۔‘
اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان طالبان قیادت بارہا عالمی برادری سے اپنی حکومت کو تسلیم کرنے اور ان لاکھوں افغانوں کی مدد کے لیے اقتصادی پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کرتی آئی ہے، جسے اقوام متحدہ اکثر انسانی بحران قرار دیتی ہے۔
اپنے مضمون میں طالبان کے وزیر خارجہ کا موقف ہے کہ افغان عوام کے وقار کا احترام کرنے کا واحد راستہ ملک پر عائد تجارتی پابندیوں سمیت دیگر پابندیوں کو ہٹانے میں پوشیدہ ہے۔
’امریکہ افغانستان کے منجمد اثاثے غیر منجمد کر دے اور دوحا معاہدے کے مطابق تمام پابندیاں ختم کردے۔ جنگ زدہ ملک پر سخت پابندیاں لگانے کے لیے امریکا کے پاس کیا اخلاقی اور سیاسی جواز ہو سکتا ہے؟‘
مولوی امیر خان متقی نے امریکہ سمیت عالمی برادری پر زور دیا کہ اختلافات پابندیوں اور دباؤ سے حل نہیں ہوتے اس کے لیے باہمی اعتماد درکار ہوتا ہے۔ ’افغانستان میں ناکام ریاستوں اور منہدم حکومتوں کی تاریخ ہے۔ عالمی طاقتیں اور عظیم اتحاد بھی اس کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔‘
امیر خان متقی کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران افغان معیشت مکمل طور پر غیر ملکی امداد پر منحصر تھی جس کے خاتمہ کے بعد اب افغان عوام کی بنیادی اور انتہائی اہم ضروریات کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
’عالمی برادری کو امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ اس کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
افغان عبوری وزیر خارجہ نے خبردار کیا کہ اگر اقتصادی پابندیوں کے باعث افغانستان میں حکومت کی ناکامی کا نتیجہ دنیا بھرکے لیے سنگین نکلے گا۔
’اس طرح کی صورتحال کے ساتھ ایک عظیم انسانی المیہ رونما ہوگا جو صرف افغانستان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ہمارے پڑوسیوں، خطے اور دنیا کے لیے نئے اور غیر متوقع مشکلات کا آغاز کرے گا‘۔
افغان وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے کی مذہبی اور ثقافتی حساسیت ایک محتاط طرز عمل کی متقاضی ہیں۔ جس حکومت نے اس نوعیت کی حساسیت سے متعلق مناسب توازن برقرار نہیں رکھا اسے جلد یا بدیر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے امیر خان متقی نے دعوٰی کیا کہ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ سر زمینِ افغانستان کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو جب کہ منشیات کی کاشت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔