انصاف کے ترازو میں کچھ تولا جائے گا یا بغیر رکھے ہی تُل چکا؟ یہ بہت نامناسب ہے، پہلے مدعی موقف بیان کرے سوالات بعد میں، کینیڈا کی عدالت میں تو مقدمہ ایک گھنٹے میں ختم ہوجاتا ہے، سپریم کورٹ میں ججز کے درمیان نوک جھونک ہوئی ہے۔
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی آج بینچ میں موجود دوسرے جج صاحبان کے متواتر سوالات سے قدرے خفا نظر آئے اور کہتے رہے کہ وکیل صاحب کو دلائل مکمل کرنے دیے جائیں۔
مزید پڑھیں
ایک موقع پر چیف جسٹس نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ’میں نے پچھلے آدھے گھنٹے سے کچھ نہیں لکھا‘، اس پر فیصل صدیقی بولے سر صفحہ نمبر 160 ہے، فوراً لکھوا دیتا ہوں کہیں آپ کا قلم سوکھ نہ جائے، جس پر چیف جسٹس بولے آپ کچھ دلائل دیں گے تو ہم لکھیں گے۔
جسٹس منیب اختر چیف جسٹس سے خفا کیوں ہوئے؟
ایک موقع پر چیف جسٹس نے ازراہ تفنن کہاکہ ایک دفعہ میں ایک بینچ کے سامنے پیش ہوا تو میں نے ان سے کہاکہ اگر جج صاحبان نے فیصلہ کرلیا ہے تو میں دلائل نہیں دیتا، انہوں نے وکیل فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ دلائل دے دیں ہم فیصلہ کرلیں گے، جس پر جسٹس منیب اختر خاصے خفا ہوئے اور کہاکہ یہ بہت نامناسب بیان ہے، یہ فل کورٹ ہے اور ہر جج کو سوالات پوچھنے کا حق حاصل ہے جو بھی وہ پوچھنا چاہیں، اور ایسی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے کہ فیصلہ پہلے ہی سے کرلیا گیا ہے، یہ مناسب بیان نہیں ہے اور میں اسے قبول نہیں کرتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ حال ہی میں، میں نے کینیڈا میں سپریم کورٹ کی کارروائی دیکھی، وہاں ٹائمر لگا ہوتا ہے، ایک گھنٹے میں وکیل اپنے دلائل مکمل کرتا ہے اور ساتھ میں ججز کے سوالات بھی مکمل ہو جاتے ہیں، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ ہمارے وکیلوں کو شاید کینیڈا میں تربیت کی ضرورت ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے غلطی ہوئی، اس نے آزاد امیدواروں کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کو تسلیم کیا اور بعد میں کہاکہ سنی اتحاد کونسل نے تو مخصوص نشستیں اپلائی ہی نہیں کیں، اب الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی غلطی سدھارتے ہوئے آزاد امیدواروں کو ایک ایسی جماعت میں شمولیت کا موقع دیتا جس نے مخصوص نشستیں اپلائی کررکھی تھیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا جسٹس منصور علی شاہ سے اتفاق
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن کی غلطی کی وجہ سے لوگوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ آزاد امیدواروں کے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت پر کوئی پابندی نہیں تھی، وہ لوگ وہاں کیوں نہیں گئے۔ انہوں نے کہاکہ بلے کے نشان کے فیصلے کو پڑھے اور سمجھے بغیر ہوا بنا کر لوگوں کو گمراہ کیا گیا، یہاں تک کہ پارٹی کے اپنے لوگ بھی مس گائیڈ ہوگئے جو کہ انہیں نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اس موقع پر فیصل صدیقی نے وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ آزاد امیدواران پاکستان تحریک انصاف میں شامل کیوں نہ ہوئے اور سنی اتحاد کونسل میں کیوں شامل ہوئے لیکن چیف جسٹس نے انہیں یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ آپ پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی نہیں کرسکتے اور میں نے آدھے گھنٹے سے کچھ نہیں لکھا۔