بجلی کی ڈسکوز نے ہمیں ڈسکو کروا دیا

منگل 4 جون 2024
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ قوم سنگین مذاق، روزمرہ بد انتظامی اور ہر ناکام قدم کا ڈھٹائی سے دفاع کرنے کی اسٹیبلشمنٹی روایت  کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ اب اگر واقعی کسی روز گورننس درست ہونے کی خبر آ جائے تو بہت سے کمزور دل شہری حیرت کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق بھی ہو سکتے ہیں۔

جب 90 کی دہائی میں اس قوم کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عفریت نے پوری طرح پنجوں میں دبوچ لیا۔ تب کی حکومت نے اس کا ذمہ دار بجلی کی سالانہ مانگ میں اضافے اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی کو قرار دیا۔

سنہ 1994 میں جاری ہونے والی انرجی پالیسی میں بتایا گیا کہ برقی پیداواری صلاحیت 10 ہزار 800 میگاواٹ ہے جبکہ ضرورت موسمی اتار چڑھاؤ کے اعتبار سے 12 تا 15 ہزار میگاواٹ ہے۔

چونکہ کالا باغ ڈیم صوبائی اعتراضات کے سبب بن نہیں سکتا لہذا ایک ہی راستہ ہے کہ بجلی کے شعبے میں بین الاقوامی سرمایہ کاری ہو۔ چنانچہ ہنگامی بنیادوں پر پرکشش منافع بخش سمجھوتے کیے گئے۔ شرائط  کے مطابق جو بجلی نہیں بھی استعمال ہونی تھی اس کے بھی کیپیسٹی چارجز کی مکمل ادائیگی کا وعدہ ہوا۔ یوں غیر ملکی کمپنیاں انٹرنیشنل پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) برقی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے ’شوق در جوق‘ اترنے لگیں۔

 الحمدللہ آج ہم پانی، سورج، ہوا، فرنس آئل اور کوئلے کی مدد سے لگ بھگ 46 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے قابل ہیں۔ مگر ہماری موجودہ ضروریات 28 ہزار میگاواٹ ہیں۔ تاہم  پیسے ہم ان 18 ہزار میگاواٹ کے بھی ادا کر رہے ہیں جو تب پیدا ہو گی جب  ضرورت ہو گی۔ یوں ہم نے ڈھائی ٹریلین روپے سے زائد  کے گردشی قرضے کا ڈھول اپنے گلے میں خوشی خوشی ڈال لیا۔

مگر عام آدمی کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہے کہ اب جبکہ گنجائش سے کہیں زیادہ بجلی پیدا ہو رہی ہے تب بھی اکثر علاقوں میں 4 سے 16 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ بجلی تو ضرورت سے وافر ہے  مگر موجودہ ٹرانسمیشن لائنیں اضافی بار اٹھانے کے قابل ہی نہیں۔

یعنی جب سنہ 1994 میں آئی پی پیز کو دھڑا دھڑ لائسنس جاری کیے جا رہے تھے تب کسی کو خیال نہ آیا کہ  جتنا بجلی کی پیداوار میں اضافہ ضروری ہے اس سے زیادہ ضروری ٹرانسمیشن سسٹم کو  اضافی لوڈ اٹھانے کے قابل بنانا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ بمپر فصل تو تیار ہو کے کھیتوں میں پڑی ہو مگر اسے منڈی اور صارف تک پہنچانے کے لیے مطلوبہ ٹرانسپورٹ سسٹم میسر نہ ہو۔

موجودہ لوڈ شیڈنگ کو ’اکنامک لوڈ شیڈنگ‘ کا خوشنما نام دے دیا گیا ہے۔ یعنی جن علاقوں میں بلنگ کی صرف 10 فیصد ریکوری ہو رہی ہے، لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ وہیں زیادہ ہے۔ جہاں ریکوری ریٹ 70 فیصد کے لگ بھگ ہے وہاں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔

تیسرا جواز بجلی کی چوری کو قرار دیا گیا۔ سنہ 1990 کی دہائی تک پاکستان میں بجلی کی تقسیم کے 2 ہی ادارے تھے۔ واپڈا اور کراچی ڈویژن کی حد تک کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی)۔ عالمی بینک کے افلاطونوں نے کہا کہ اتنے بڑے ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کو چلانا اور بجلی ضائع یا چوری ہونے سے روکنا یا بلوں کی ریکوری محض ’ڈیڑھ‘ اداروں کے بس کی بات نہیں۔ ڈسٹری بیوشن کو ڈی سینٹرلائز کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔

یوں 12 خود مختار تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکوز) وجود میں آ گئیں۔ آج 2 عشروں سے زائد مدت گزرنے کے بعد ہمیں سرکار یہ خوشخبری دے رہی ہے کہ ان تقسیم کار کمپنیوں میں بدانتظامی، اوور بلنگ اور بجلی کی چوری میں مدد کاری عروج پر ہے۔ ان ’کارناموں‘ میں اوپر سے نیچے تک کے بابو ملوث ہیں۔ اس سرطان کے سبب قومی خزانے کو تقریباً  590 ارب روپے سالانہ کا ٹیکہ لگ رہا ہے۔ لہذا  ڈسکوز کے انتظامی بورڈز بدلنے  کی ضرورت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ  ان بورڈز  کے متعدد ممبروں کی تقرریاں پی ڈی ایم کی سابق مخلوط حکومت (یعنی موجودہ سابقہ حکومت) کے دور میں سیاسی مصلحتوں اور شریک اقتدار پارٹیوں کے دباؤ کی مجبوری میں کی گئی تھیں۔ اب ان بورڈز کو قوم کے گلے میں ڈالنے والے ہی ’پرچی مافیا‘ کی جگہ پروفیشنل ماہرین  لانا چاہتے ہیں تاکہ ان انتظامی علتوں کا قلع قمع ہو سکے جن کے سبب یہ کمپنیاں خزانے پر بوجھ بن گئی ہیں۔

سابق نگراں حکومت نے بجلی کی چند تقسیم کار کمپنیوں کو ریکارڈ خسارے کی پاداش میں نجی شعبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر یہ خواہش عملی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی نگراں حکومت کے ساتھ رخصت ہو گئی۔

اور  کچھ دن پہلے خوش خبری آ  ہی گئی کہ کابینہ  کی ایک خصوصی کمیٹی نے 8 برقی تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈز کی تشکیل نو کی منظوری دے دی ہے اور وزیر اعظم نے ضروری احکامات جاری کر دیے ہیں۔ مگر پھر (روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق) یہ عمل شروع ہونے سے پہلے ہی روکنا پڑ گیا۔ ایک تو ہر طرف سے مزاحمتی دباؤ آنا شروع ہو گیا اور کچھ ڈسکوز کے بورڈ ممبروں نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ دے دیا کیونکہ یہ بورڈز 3 برس کی طے شدہ مدت کے لیے تشکیل دیے جاتے ہیں اور ابھی ان کی ایک برس سے زائد معیاد باقی ہے۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ یہ باریک نکتہ وزارت قانون کی نگاہوں سے شاید اوجھل رہا۔ چنانچہ تشکیل نو کی سمری واپس دراز میں رکھنی پڑ گئی اور اب اس بابت متبادل راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں تاکہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ آسان الفاظ میں ڈسکوز کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ صارفین کو ایک لمبے عرصے تک ڈسکو کروائے گا۔

بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں تو ’حسن انتظام‘ کی بس ایک مثال ہیں۔ یہاں تو جانے کتنے اداروں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ بلیاں دودھ کی رکھوالی کر رہی ہیں۔

دنیا کا  کوئی 8واں عجوبہ اگر  ہے تو وہ ہم ہیں۔ پہلے بجلی کی قلت کے سبب لوڈ شیڈنگ تھی آج برقی افراط کی بے انتظامی  لوڈ شیڈنگ کی وجہ ہے۔ جس ریاست میں چھوٹی سے چھوٹی اصلاحات کا عمل بھی مافیاؤں اور قانونی موشگافیوں کے رحم و کرم پر رہ جائے وہاں گڈ گورننس کے سوا سب کچھ ممکن ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp