سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ گزشتہ 30 سالوں میں صرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) ہی ایک حقیقی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی، باقی جماعتیں بوقتِ ضرورت بنائی گئیں۔
مزید پڑھیں
ہمارے حکمرانوں میں صلاحیت کی کمی ہے، جب حکومت میں صلاحیت نہ ہو تو اسٹیبلشمنٹ کو موقع مل جاتا ہے، میرے دور میں اسٹیبلشمنٹ نے دھرنے کرائے، سینیٹ الیکشن چوری ہوا لیکن میں اپنا کام کرتا رہا۔
اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جماعتیں ہی اقتدار میں آتی ہیں لیکن ہم اقتدار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی ذاتی نہیں، مقصد اقتدار کا حصول ہے۔
عدلیہ کے سیاست میں حصہ لینے سے ملک کو شدید نقصان پہنچتا ہے
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے وی نیوز کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ جب عدلیہ سیاست میں حصہ لے تو ملک کو بہت نقصان پہنچتا ہے، ہم سب کو اپنی کرسیاں چھوڑ کر ملک کی بات کرنا ہوگی۔
میری سیاسی جماعت کا نام ’عوام پاکستان‘ ہوگا
میری سیاسی جماعت 3 سے 4 ہفتوں میں قیام ہوجائے گا اس کا نام’عوام پاکستان‘ ہوگا، پارٹی کے باضابطہ اعلان کے بعد سب کے پاس جائیں گے اور اس میں شمولیت کی دعوت دیں گے۔
ن لیگ کی موجودہ سیاست سے اتفاق نہیں
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ ن سے کوئی ناراضی نہیں ہے، میرا 35 سال کا تعلق ہے اور میں جماعت کے سینیئر ترین لوگوں میں شمار تھا، لیکن میں اس سیاست سے اتفاق نہیں کرتا جس کا چناؤ اس وقت مسلم لیگ ن نے کیا ہے۔
ہم ووٹ کو عزت دوکی سیاست کے ساتھ تھے، لیکن آج کی سیاست کچھ اور ہے، اس وقت بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی نئی سیاسی جماعت ہونی چاہیے۔
نواز شریف کے ساتھ ذاتی تعلق قائم رکھنا چاہتا ہوں
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ ن میں پھر شامل ہونے کے لیے میں نے کوئی رابطہ کیا نہ ہی ان کی طرف سے کوئی رابطہ کیا گیا، نواز شریف سے 35 سال کا ایک ذاتی تعلق ہے وہ جب بھی حکم کریں گے میں حاضر ہوجاؤں گا اور میں چاہتا ہوں کہ رشتہ قائم رہے۔
نواز شریف اور میرا سیاسی سفر الگ ہوگیا ہے
انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور میرا سیاسی سفر اب مختلف ہے ہم ایک نئے سفر پر ہیں، کوشش کر رہے ہیں کہ ایک ایسی جماعت بنائیں جو ملک کو بہتر مستقبل دے سکے، عوامی مسائل کے حل کی بات کرے اور جدید سیاست کرے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم نے اپنی جماعت کے لیے ’عوام پاکستان‘ کا نام ہی منتخب کیا ہے، فی الحال کسی سے جماعت میں شمولیت کے لیے رابطہ نہیں کیا تاہم اس کی تشکیل کے بعد مختلف لوگوں کے پاس جائیں گے اور انہیں شمولیت کی باضابطہ دعوت دیں گے۔
چاہتے ہیں ہماری جماعت میں دیانتدار لوگ شامل ہوں
انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں لوگ ہماری جماعت اور دیگر جماعتوں میں فرق محسوس کریں اور ہماری جماعت میں دیانتدار اور با صلاحیت لوگ شامل ہوں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ حکمرانوں کے پاس صلاحیت کا نہ ہونا ہے، ملک کی 3 بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہ چکی ہیں لیکن ان کی کارکردگی صفر رہی ہے، یہ ملکی معاملات حل نہیں کر پائیں، ان میں صلاحیت بھی نہیں اور سوچ اور فکر کی کمی بھی ہے۔
الیکشن سے پہلے جماعت بنانے کے لیے دباؤ تھا
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار آئین کے مطابق ہونا چاہیے، اس سے باہر کوئی بھی کام یا کردار غیر آئینی ہے، ماضی میں جو بھی جماعتیں بنیں وہ الیکشن کے قریب ہی بنیں ، ہم پر بھی دباؤ تھا کہ الیکشن سے پہلے جماعت بنائیں لیکن ہم نے اصولی فیصلہ کیا کہ الیکشن کے بعد جماعت تشکیل دیں گے۔
ہم اسٹیبلشمنٹ کی جماعتیں چھوڑ آئے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کی جماعتوں کو چھوڑ کر آئے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی جماعتیں اقتدار میں ہوتی ہیں اور یہ اقتدار چھوڑ کر آئے ہیں۔ ہر ملک کی ایک اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کو آئینی دائرے کے اندر رہنا چاہیے، جب آئینی دائرے سے باہر آتے ہیں تو ملک کا نقصان ہوتا ہے، عوام کی رائے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی بھی اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لے کر اقتدار میں آئی
ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ گزشتہ 30 سالوں میں صرف پاکستان تحریک انصاف ہی حقیقی معنوں میں ایک سیاسی جماعت ابھر کر سامنے آئی، باقی سب بوقت ضرورت بنائی گئیں، لیکن بد قسمتی ہے کہ پی ٹی آئی بھی اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لے کر اقتدار میں آئی، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس راستے سے آپ اقتدار میں آتے ہیں اسی راستے سے واپس چلے جاتے ہیں۔
جانتا ہوں عمران خان کی کیا صلاحیت ہے، ہمیں کرسی چھوڑ کر ملک کی بات کرنا ہوگی
انہوں نے کہا کہ ہمارا نظام ایک ناکامی کی داستان ہے، پی ٹی آئی کے پاس کسی چیز کا کوئی حل نہیں ہے، میں جانتا ہوں کہ عمران خان کی کیا صلاحیت ہے اور انہوں نے کیا کیا ہے، آج کسی کے پاس ملک کی صورتحال کو بہتر کرنے کا کوئی حل نہیں ہے، ہمیں اپنی کرسیاں چھوڑ کر ملک کی بات کرنا ہوگی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر آپ میں صلاحیت ہو کہ آپ ملک کے مسائل حل کرسکیں تو عوام کے اندر بھی آپ کی پذیرائی ہوگی اور ملک کا بھی بھلا ہوگا، ہم اسی نظریہ کے ساتھ نئی جماعت لے کر آئے ہیں۔
جمہوری ادارے میں ذاتی اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سیاست میں یا کسی جمہوری ادارے میں ذاتی اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، آپ کو اصولوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے اور یہ سوچ رکھنی پڑتی ہے کہ ملک کیسے چلے گا، کس کی کیا ذمہ داریاں ہیں، اختیارات کہاں اور کس کے پاس ہیں اور یہی آئین کی بھی بنیادی باتیں ہیں، ان کی خلاف ورزی کر کے آپ وزیراعظم رہ سکتے ہیں نہ ہی کسی اور عہدے پر رہ سکتے ہیں۔
وزیراعظم کے پاس اختیار نہیں تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جانا چاہیے
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جب حکومت کے پاس صلاحیت نہیں ہوتی تو اسٹیبلشمنٹ کو موقع ملتا ہے اور وہ اپنی جگہ بنا لیتی ہے، اگر وزیراعظم کے پاس کوئی اختیار نہیں تو ایک اختیار تو ہے کہ وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔
میرے دور میں اسٹیبلشمنٹ نے دھرنے بھی کروائے لیکن پھر بھی با اختیار وزیراعظم رہا
انہوں نے کہا کہ میں 10 ماہ تک مکمل با اختیار وزیراعظم رہا، کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کسی سے نہیں پوچھا۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس پر کوئی دباؤ نہ آتا ہو، میرے دور میں اسٹیبلشمنٹ نے دھرنے بھی کرائے، بلوچستان کی حکومت ختم کردی گئی، سینیٹ کا الیکشن اور چیئرمین کی سیٹ چوری ہوئی، لیکن میں اپنا کام کرتا رہا، حکومت بنانے کا جو مقصد تھا وہ پورا کیا، بغیر مداخلت دنیا کا کوئی کام نہیں ہوتا لیکن آپ کو اسے منیج کرنا پڑتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر آپ 3 سال 8 ماہ وزیراعظم رہنے کے بعد کہیں کہ مجھے چلنے نہیں دیا گیا تو بہتر تھاکہ آپ پہلے دن ہی استعفیٰ دے کر گھر آ جاتے، آپ کا بھی بھلا ہوجاتا اور ملک کا بھی بھلا ہوجاتا۔
وزیراعظم بادشاہ نہیں ہوتا جو اس کے منہ سے نکلے وہ قانون بن جائے
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزیراعظم دیگر وزرا میں اولین حیثیت رکھتا ہے، وہ کوئی بادشاہ نہیں ہوتا کہ جو بھی لفظ اس کے منہ سے نکلے وہ قانون بن جائے۔ وزیراعظم آئین کے مطابق چلے گا تو ملک بھی آئین کے مطابق چلے گا، جب آپ آئین سے باہر نکلیں گے تو پھر کسی اور کو موقع مل جائے گا۔
جب سے پاکستان بنا، سپریم کورٹ نے کس قسم کے فیصلے دیے؟
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے سپریم کورٹ نے کس قسم کے فیصلے دیے ہیں، نواز شریف کے کیس میں سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن گیا اور اپنے بیٹے سے 15 ہزار درہم کی فیس نہ لینے پر مجرم قرار دے کر حکومت ختم کردی اور اب 6 سال بعد خیال آیا کہ غلط ہوگیا تھا۔
عدلیہ جس ملک میں سیاست کا حصہ بن جائے وہ ترقی نہیں کرسکتا
ان کا کہنا تھا کہ جس ملک میں عدلیہ انصاف نہ کرے اور سیاست کا حصہ بن جائے وہ ملک ترقی نہیں کیا کرتے، ہر ادارے کو اپنے آئینی دائرے کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے، بغیر ضابطے کے چھوٹی سی دکان نہیں چلتی یہ تو 24 کروڑ عوام کا ملک ہے۔
اپنے حلف کی ہی پاسداری کرلیں تو ملک چل پڑے گا
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ اقتدار مل جائے، بات ملک کی کرنی چاہیے، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ الیکشن چوری کرے لیکن ہمارا ہر الیکشن چوری ہوتا ہے، اگر ہم لوگ اپنے حلف کی ہی پاسداری کرلیں تو ملک چل پڑے گا۔
مداخلت کی شکایات ہیں تو شہباز شریف استعفیٰ دے دیں
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس وقت شہباز شریف وزیراعظم ہیں، باعزت راستہ تو یہی ہے کہ اگر وہ حکومت نہیں چلا پا رہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ملک چلانے نہیں دیا جا رہا جو کہ ایک عام شکایت ہوتی ہے تو استعفیٰ دیں اور گھر چلے جائیں، استعفیٰ سے تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔
شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن چوری کرے یا کوئی اور اس میں لوگوں کا ایک ٹولہ ہوتا ہے جس کو فائدہ پہنچتا ہے، کسی کا حق کسی اور کو مل جاتا ہے، ہمیں یہ روایت ختم کرنا ہوگی، یہ سلسلہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجودہ حکومت بھی عوام کے مینڈیٹ سے اقتدار میں نہیں آئی اس لیے اس کے چلنے کے امکان بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ عوام نے کس کو مینڈیٹ دیا ہے، اتنی واضح مثالیں موجود ہیں کہ الیکشن چوری ہوا ہے، عوام ایک مرتبہ غلط فیصلہ کرے گی، پھر کچھ بہتر فیصلہ کرے گی اور اسی دوران ہو سکتا ہے کہ عوام سے صحیح فیصلہ بھی ہوجائے۔