پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کروا لیتی تو مخصوص نشستوں کا مسئلہ ہی نہ ہوتا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

منگل 4 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت 24جون تک ملتوی کردی گئی، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ججز کا 13رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کی۔ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے آج بھی دلائل دیے، ججز نے ان کے دلائل پر سوالات اٹھائے اور اہم ریمارکس دیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کرواتی تو آج مخصوص نشستوں کا مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ اس دوران چیف جسٹس اور جسٹس اطہر من اللہ کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔

13 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی علالت کے باعث بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔

سماعت کا آغاز

سماعت شروع ہوتے ہی سنی اتحاد کونسل کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا، اور کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنےکا کہا گیا تھا۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ پہلےکیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ کل سوال تھاپی ٹی آئی نے بطورجماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا، سلمان اکرم راجہ نے اسی متعلق درخواست دی تھی جومنظورنہیں ہوئی۔

لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کر دیا اور کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جا سکتا ہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، بطور جماعت حصہ نہیں لیا تو آزاد امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا، سنی اتحاد کونسل نے شیڈول کے مطابق مخصوص نشستوں کی لسٹ دی، الیکشن کمیشن نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا تمام دستاویزات موجود ہیں جو سوالات سے متعلق ہیں؟ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرے پاس تمام سوالات ہیں، سب دستاویزات بھی عدالت میں دکھاؤں گا، اس میں کوئی تنازع نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات نہیں لڑے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ تنازع کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ بس کہیں کہ الیکشن نہیں لڑا، فل اسٹاپ، دو جگہ آپ نے پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی، تیسری جگہ پولیٹیکل پارٹی لکھا ہے، آخری جگہ پارٹی لکھا، اس میں کوئی خاص فرق ہے؟ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمنٹری پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی کا بتایا ہے، پولیٹکل پارٹی پارلیمانی پولیٹیکل پارٹی ہو سکتی ہے۔

پہلے سیاسی جماعت تھے، اب پارلیمانی جماعت بن گئے ہیں، وکیل سنی اتحاد کونسل

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین پولیٹکل پارٹی اور پارلیمنٹری پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرتا ہے، آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے، آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل سنی اتحاد کونسل اور تحریکِ انصاف ایک دوسرے کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا حریف بننے کے معاملے سے تعلق نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ فیصل صاحب کیا سیاسی جماعت کے بغیر کوئی پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے؟ کیونکہ پارلیمانی پارٹی بننے کے لیے سیاسی جماعت کی شرط ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر سیاسی جماعت کا سربراہ کہہ دے کہ آپ نے فلاں جماعت کو ووٹ دینا ہے تو پارلیمانی جماعت اس کی پابند نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ ہمارا فوکس سیاسی جماعت پر ہونا چاہیے، اسی لیے کل پوچھا تھا کہ سیاسی جماعت کیا ہے، جب تمام آزاد امیدواروں نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں تو وہ آزاد کیسے ہوئے، کیا الیکشن کمیشن کی رول میکنگ پاور بنیادی قانون سے انحراف کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس بولے کہ اس طرح ہے تو پی ٹی آئی کے اراکین کس طرح سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو سکتے ہیں؟ وہ تو پی ٹی آئی چھوڑ کر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو رہے ہیں۔

الیکشن کمیشن سے بلے کا نشان کیوں نہیں مانگا، چیف جسٹس

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے پی ٹی آئی کی جانب سے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرائی تھی تو اس فہرست کو الیکشن کمیشن کے سامنے کونٹیسٹ کیوں نہیں کیا؟ چیف جسٹس بولے کہ آزاد امیدواروں کے طور پر آپ نے الیکشن کمیشن سے بلے کا نشان کیوں نہیں مانگا، وہ دیں نہ دیں، یہ تو بعد کی بات ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار کوئی بھی انتخاب نشان لے سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ انفرادی طور پر بلے کا نشان نہیں دیا جا سکتا، ایسا نہیں تھا، جب کیس چل رہا تھا میں نے کہا تھا کہ اب بھی انٹرا پارٹی الیکشن کر لو کیوں نہیں کر رہے ہو۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ایک پارٹی کا نشان بلے باز بھی تو تھا اس کے ساتھ کیا ہوا۔ چیف جسٹس بولے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھ تو لیتے پھر کمنٹ کرتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے اسکے فیصلے ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، ارکان حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کا ذکر اس موقع پر کرنا غیرمتعلقہ ہے۔

مناسب ہوگا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر ہی فوکس کریں، جسٹس منیب اختر

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی امیدوار ظاہر کیا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار منظور ہوئے اور لوگ منتخب ہوگئے، الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو وہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہونگے۔

کل سے میں یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں، جسٹس جمال مندوخیل

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس حساب سے تو سنی اتحاد میں پی ٹی آئی کے کامیاب لوگ شامل ہوئے، پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہوسکتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازعہ کی وجہ بنی۔ سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس وقت سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، ہمارے سامنے پی ٹی آئی نہیں ہے۔ جسٹس منیب اختر بولے کہ ازراہ تفنن بات کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت آپ پی ٹی آئی سنی اتحاد کونسل ہم خیالی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب آپ انٹراپارٹی انتخابات نہیں کراتے تو رولز کے مطابق آپ کو انتخابی نشان نہیں ملتا، یہ رولز ہم نے نہیں آپ ہی نے بنائے ہیں۔ آپ انفرادی طور پر بلے کا نشان لے سکتے تھے۔

سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے پی ٹی آئی چھوڑ کر آرہے ہیں، چیف جسٹس

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کے لیے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجہ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

جسٹس منیب اختر بولے کہ ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی۔ جسٹس عائشہ ملک بولیں کہ جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کے لیے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو پی ٹی آئی لینا چاہتی تھی، بلے باز والی جماعت کیساتھ کیا ہوا تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بلے باز والی جماعت کیساتھ انضمام ختم کر دیا تھا۔ چیف جسٹس بولے کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہوسکتا؟

الیکشن کمیشن نے آزاد امیدوار ڈکلیئر کیا، خود آزاد نہیں بنے، فیصل صدیقی

فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ۔ جسٹس منیب اختر نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کہنے کی ضرورت تھی؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نشان کسی اور کو نہیں مل سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا، عدالت نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر کہا تھا کوئی ایشو ہوا تو رجوع کر سکتے ہیں۔

جیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ میں اس لیے آزاد امیدوار ہوں کہ مجھے بلے کا نشان نہیں ملا، فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے الیکشن کمیشن نے آزاد امیدوار ڈکلیئر کیا۔ چیف جسٹس بولے کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہو جاتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اصل اسٹیک ہولڈر ووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کر رہی تھی لیول پلئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ شکایت ہمارے سامنے نہیں۔

سچ بولنا شروع کردیں تو سچ کڑوا ہے: اطہر من اللہ، ہمیشہ سچ بولنے کی ہی کوشش کرتا ہوں: چیف جسٹس

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہوسکتا تھا۔ ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اور یہ پہلی بار نہیں تھا۔ اگر سچ سب بولنا شروع کر دیں تو سچ بہت کڑوا ہے، چیف جسٹس بولے کہ میں تو ہمیشہ سچ بولنے ہی کی کوشش کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ ایک سیاسی جماعت بناتے ہیں تو وہ ون مین پارٹی نہیں ہوتی، جب آپ عوام کو اس میں شامل کرتے ہیں تو ان کا حق ہے کہ انٹراپارٹی انتخابات لڑیں، جب جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری بات کریں، اور جمہوریت کا آغاز سیاسی جماعت سے ہوتا ہے۔

چیف جسٹس کا وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ

چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرست پارٹی سربراہ دیتا ہے، اس میں ووٹنگ نہیں ہوتی، بطور پارٹی سربراہ میں اپنے دوستوں کے نام شامل کر سکتا ہوں، تو لفظ الیکشن اور نمائندگی استعمال نہ کریں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا تھا، چیف جسٹس نے پوچھا عدالت نے الیکشن کمیشن کے مطابق نہیں قانون پر چلنا ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہی عدالت میں چیلنج ہوتے ہیں۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ فیصل صدیقی بولے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا گیا یہ حتمی ہوچکا ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ حتمی ہوچکا ہے تو بحث کا کیا فائدہ؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سارے مسئلے حل ہوجاتے اگر سپریم کورٹ بلے کے نشان والے فیصلے کی وضاحت کر دیتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی جماعتی انتخابات کروا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا۔

اس عدالت پر ہر چیز کا ملبہ نہ ڈالیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے جمہوری حق سے اپنے لوگوں کو محروم رکھا تھا، اس سیاسی جماعت کے الیکشن میں ووٹرز کی خواہش کی عکاسی کہاں ہوئی؟ پارٹی الیکشن ہوتے تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی ممبران کو ہی ہوتا وہ الیکشن لڑ لیتے۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ بلے والے فیصلے پر نظرثانی زیر التوا ہے، ساری باتیں یہاں کرنی ہیں تو وہاں کیا کریں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایوان میں زیادہ آزاد میدوار ہوں اور 2 سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ہوگا؟ کیا ساری مخصوص نشستیں 2 سیاسی جماعتوں کو جائیں گی؟ یا ان جماعتوں کو صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازعے کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حقیقی آزاد امیدوار ہوں تو ان کے تو مزے ہو جائیں گے، حقیقی آزاد امیدواروں کو تو دیگر سیاسی جماعتیں لے لیتی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر یہ 77 لوگ سنی اتحاد کونسل میں شامل نہ ہوتے پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ 2 سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کے تناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی، باقی نشستوں کا کیا ہوگا بعد میں دیکھا جائے گا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ان ہی سیاسی جماعتوں کو اضافی نشستیں بھی بانٹ دیں، ایسا کرنے سے پھر متناسب نمائندگی کا اصول کہاں جائے گا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئین سے بتائیں یہ کہاں ہے؟ فیصل صدیقی بولے کہ یہ تو ایسے ہی ہے کہا جائے شوہر شادی شدہ نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انٹراپارٹی الیکشن کیوں ہونے چاہییں، یہ سوچنا پارلیمان کا کام ہے، سپریم کورٹ میں کم عقل ہوتی ہے زیادہ عقل پارلیمان میں ہوتی ہے، وہ کوئی قانون کیوں بناتے ہیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، اگر وہ قانون خلاف آئین ہوگا اس کو کالعدم کردیں گے، لیکن انٹراپارٹی انتخابات کا قانون انہوں نے ہی بنایا ہے۔

’آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی کا کیس اچھا تھا‘۔

انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی جا کر کہہ سکتی تھی یہ ہمارے لوگ ہیں نشستیں ہمیں دو، کس دلیل پر پی ٹی آئی کا یہ موقف مسترد ہوتا، یہ لوگ سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟ یا تو آپ کہیں ایوان کو مکمل نہیں کرنا تو بات ختم ہے۔ 336 کا نمبر پورا ہونا تو پھر نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت نشستیں نہ جیتے سب آزاد آئیں تو کیا ہوگا؟ فیصل صدیقی بولے کہ ایسی صورت میں مخصوص نشستیں کسی کو نہیں ملیں گی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی سیٹوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر پی ٹی آئی والے سنی اتحاد میں شامل نہ ہوتے تو کیا مخصوص نشستیں خالی رہتیں؟ آپ خود کہہ چکے ہیں کہ ایوان میں کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، سیاسی جماعتوں کو کس تناسب سے نشستیں ملیں گی یہ آئین میں کہاں لکھا ہے؟

جسٹس مںصور علی شاہ نے پوچھا کہ حاصل کی گئی جنرل نشستوں سے ہی سیاسی جماعت کا تناسب نکلے گا، فیصل صدیقی نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی میں سات ارکان آزاد ہیں، 7سیٹوں پر مخصوص نشست نہیں بنتیں۔

اہم ریمارکس

سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا منشور ایک تو نہیں ناں؟ پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعت کی ایک اہمیت ہوتی ہے، آئین کو دیکھنا ہے تو پورا دیکھیں مکس اینڈ میچ نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس وقت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے نہیں کہہ رہے کہ ہم اس کے منشور سے متفق نہیں، کسی رجسٹرسیاسی جماعت کے لیے الیکشن لڑا ہونا کیوں ضروری ہے آزاد امیدواروں کی شمولیت کے لیے؟ مجھے اس کے پیچھے کیا دانش ہے وہ سمجھ نہیں آتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہمجھ سے پوچھیں تو اس کے پیچھے معقول وجہ موجود ہے، ایک جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لیتی تو سیاسی عمل کو رد کرتی ہے، برا نہ مانیے گا مگر آپ کی جماعت کا میں نے سنا ہی نہیں ہوا تھا، ہو سکتا ہے باقی لوگوں نے سنا ہو، لوگوں کے سامنے آؤ تو سہی ان کی نمائندگی تو کرو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp