بھارتی وزیراعظم کی تیسری مدت دنیا کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟

منگل 4 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی وسیع پیمانے پر توقع کی جارہی ہے کہ وہ منگل کو مسلسل تیسری مرتبہ برسر اقتدار آجائیں گے، ایک ایسے ملک کی قیادت کرنے جو دنیا کی سب سے بڑی آبادی اور انتہائی تیزی سے ترقی کرنیوالی معیشت کا حامل ہے۔

73 سالہ ہندو قوم پرست رہنما کی حیثیت سے وزیر اعظم نریندر مودی کو، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ملک کی مستقل نشست کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، امریکا اور یورپی اتحادیوں نے چین کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر پیش کیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی آمریت کے بارے میں انتباہات کے باوجود دنیا کی پانچویں سب سے بڑی اور تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت کی حیثیت سے بھارت مغربی رہنماؤں کا پسندیدہ ملک ہے۔

نریندر مودی نے 2023 میں جی20 کی صدارت اور اجلاس کی ہندوستان میں انعقاد کو بیرون ملک اپنا تاثر کو جلا بخشنے کے لیے استعمال کیا، اور گزشتہ سال 2036 کے سمر اولمپکس کے لیے بولی لگا کر کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کی امید رکھتے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ممکنہ تیسری مدت ان کے سفارتی عزائم کی گزشتہ دہائی پر کیسے پیش رفت کرسکتی ہے؟

پاکستان

اسلام آباد پر سرحد پار دہشت گردی کا الزام لگانے کے بعد سے نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ بات چیت سے انکار کر دیا ہے۔

1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد سے دونوں ممالک 3 جنگیں اور متعدد چھوٹی چھوٹی جھڑپیں لڑ چکے ہیں، تمام عرصہ کے دوران مقبوضہ جموں و کشمیر کشیدگی کا مرکز رہا ہے۔

2015 میں مودی نے اچانک لاہور کا دورہ کیا لیکن 2019 میں تعلقات میں کمی آئی لیکن مارچ میں مودی نے پاکستانی ہم منصب شہباز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس میں واپسی پر مبارکباد دی۔

یہ جوہری ہتھیاروں سے لیس 2 ہمسایہ حریفوں کے رہنماؤں کے درمیان خیر سگالی کا ایک نادر اظہار تھا، جس سے دوطرفہ سرد تعلقات میں پگھلاؤ کی امیدیں پیدا ہوئی ہیں۔

امریکا اور یورپ

صدر جو بائیڈن نے گزشتہ سال نریندر مودی کے اعزاز میں ایک سرکاری عشائیہ کی میزبانی کی اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو 21ویں صدی کی واضح شراکت داری قرار دیا۔

رواں برس فروری میں، واشنگٹن نے بھارت کو جدید ترین ڈرونز کی 4 بلین ڈالر کی فروخت کی منظوری دی، جو پڑوسی ملک چین کے مقابلے میں بھارت کے دفاع کے لیے تازہ ترین تقویت ہے۔

حقوق گروپوں کی جانب سے ہندوستان کی جمہوریت کو لاحق خطرات اور 200 ملین سے زائد مسلم اقلیت کے ساتھ بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجانے کے باوجود امریکا سے تعلقات کی یہ گہرائی سامنے آئی ہے۔

تاہم، یہ تعلق مکمل طور پر ہموار نہیں رہا ہے، امریکی محکمہ انصاف نے گزشتہ برس ایک بھارتی شہری پر نیویارک میں مبینہ طور پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا تھا، جسے بھارت کی خفیہ ایجنسی نے منظور کیا تھا۔

ہندوستان کے یورپی ممالک کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات ہیں، فرانس کے ساتھ بھارت کو رافیل لڑاکا طیاروں اور اسکورپیئن کلاس آبدوزوں کی فروخت سمیت اربوں ڈالر کی ڈیل میں اضافے کی امید ہے۔

چین

دنیا کے 2 سب سے زیادہ آبادی والے ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات 2020 میں اس وقت خراب ہو گئے جب ان کے فوجیوں کے درمیان 3,500 کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ ایک مہلک بلندی پر جھڑپوں کا سامنا کرنا پڑا۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس ان 2 ایشیائی طاقتوں کے ہزاروں فوجیوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رکھیں، دونوں ممالک کے درمیان علاقائی دعوے بنیادی طور پر کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

نریندر مودی کی دائیں بازو کی حکومت نے سرحدی انفرا اسٹرکچر پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں اور پچھلے سال فوجی اخراجات میں بھی 13 فیصد اضافہ کیا ہے لیکن اس ضمن میں دفاعی اخراجات چین کے مقابلے پر بمشکل ایک چوتھائی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان اس نہج کی دشمنی کے باوجود چین بھارت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

روس

نئی دہلی اور ماسکو کے تعلقات سرد جنگ کے زمانے سے استوار ہیں اور روس اب تک بھارت کو سب سے بڑا ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت نے یوکرین پر حملے کے لیے روس کی واضح مذمت سے کنارہ کشی اختیار کی، اقوام متحدہ کی ماسکو کی مذمت کرنے والی قراردادوں سے پرہیز کرتے ہوئے فقط روسی خام تیل کی سپلائی میں کٹوتی پر اکتفا کیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے مارچ میں صدر ولادیمیر پوٹن کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے مابین خصوصی تعلقات کو فروغ دینے کے منتظر ہیں۔

عالمی جنوب

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کو ابھرتی ہوئی معیشتوں کے برکس کلب کے ایک اہم رکن کے طور پر بھی پیش کیا ہے اور اس ہفتے نئی دہلی کو ’گلوبل ساؤتھ کی ایک مضبوط اور اہم آواز‘ قرار دیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر نگرانی ہی افریقی یونین بلاک نے جی20 میں شمولیت اختیار کی کیونکہ اس حوالے سے بھارت کا موقف تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو عالمی فیصلہ سازی میں زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp