آزاد کشمیر کی حکومت نے احتساب بیورو کے قانون میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرکے چیئرمین احتساب بیورو کو یہ اختیار تو دیا ہے کہ وہ اب خود ملزمان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر سکیں گے لیکن یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اپنے طور پر کوئی کارروائی کر سکیں۔ اس سے قبل گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا اختیار احتساب عدالت کے پاس تھا۔
مزید پڑھیں
نئے قانون کے تحت وزیراعظم یا کیبنٹ کی منظوری سے آزاد کشمیر کے سابق صدور اور سابق وزرائے اعظم کے خلاف ریفرنس بھیجا جا سکے گا۔
وزرا اپنے سیکریٹریز اور سینیئر افسران کے خلاف ریفرنسز احتساب بیورو کو خود بھیج سکیں گے اور چئیرمین احتساب بیورو داخل دفتر کیے گئے مقدمات دوبارہ کھول سکیں گے۔
آزاد کشمیر کی حکومت نے اس سال کے اوائل میں معروف قانون دان مشتاق احمد جنجوعہ کو احتساب بیورو کا چیئرمین تعینات کیا۔ چیئرمین مقرر ہونے کے بعد مشتاق جنجوعہ نے کہا تھا کہ احتساب بلا امتیاز ہوگا لیکن کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی احتساب بیورو نے کوئی بڑی کارروائی نہیں کی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ احتساب بیورو بے اختیار ہے اس کے باوجود اس پر سالانہ 15 کروڑ روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
اب قانون کے تحت شکایت کرنے والے کو اپنی شناخت ظاہر کرنی ہوگی یعنی جو شکایت کرے گا اس کو اپنی درخواست کے ساتھ ایک بیان حلفی اور شناختی کارڈ کی کاپی بھی منسلک کرنی ہوگی۔
اس قانون کے مطابق اگر شکایت کرنے والے کی شکایت غلط ثابت ہو تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ ماہرین نے اسے احتساب کے خلاف ایک بھرپور حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے کرپشن کا نیا دروازہ کھول دیا گیا۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ لوگ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسی ممکنہ نتائج سے بچ سکیں یا وہ کسی کے اثر میں آئیں۔ شناخت ظاہر کرنے کے قانون نے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی اور ایسے بھی واقعات ہوئے کہ شکایت کرنے والے کو دھمکیاں دے کر اپنی شکایت واپس لینے پر مجبور کیا۔
سنہ 2020 کے ترمیمی قانون میں گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کرنے کا اختیار بیورو سے واپس لے کر احتساب عدالت کو دیا گیا تھا اور ریمانڈ میں صرف ایک بار توسیع دی جاسکتی ہے۔ اس قانون کے تحت احتساب بیورو سیکریڑی کے ذریعے مطلوبہ ریکارڈ حاصل کرسکتا ہے۔ اس سے پہلے احتساب بیورو خود ریکارڈ ضبط کرتا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حکومت احتساب میں سنجیدہ ہوتی تو وہ شناخت ظاہر کرنے کی شرط ختم کرتی، احتساب بیورو کو اپنے طور پر کارروائی کا اختیار دیتی اور کسی بھی محکمے کا ریکارڈ ضبط کرنے کا اختیار دیتی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت احتساب کے عمل میں بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
واضع رہے کہ آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے ستمبر 2023 میں ریمارکس دیے تھے کہ آزاد کشمیر میں احتساب بیورو کرپشن کو روکنے کے بجائے کرپشن میں ملوث ہے۔
چیف جسٹس راجہ سعید اکرم کی سربراہی میں آزاد جموں و کشمیر کی سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مناسب تفتیش کے بغیر احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران یہ کہا تھا۔ وہ درخواست آزاد جموں و کشمیر کی محکمہ صحت کے ڈاکٹر محمد حیات نے دائر کی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کو کالعدم قرار دے کیونکہ ریفرنس انکوائری شروع ہونے کے 4 سال بعد دائر کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست کے ساتھ متعدد درخواستوں کو جوڑ دیا جس میں بیورو کے افسران پر بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔
عدالت نے کہا تھا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے جس میں بغیر کسی انکوائری/تفتیش کے ریفرنس جمع کرایا گیا ہے، احتساب بیورو کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے کیوں کہ جو ادارہ معاشرے سے کرپشن کے خاتمے کے لیے قائم کیا گیا وہ خود کرپشن میں ملوث ہے۔
یہ اس وقت کہا گیا تھا جب احتساب بیوروں کسی سربراہ کے بغیر تھا۔ اس سے پہلے نعیم شیراز احتساب بیورو کے چیئرمین تھے جن کی ملازمت کی معیاد 8 اگست 2023 کو ختم ہوگئی تھی۔
آزاد کشمیر کی حکومت نے رواں سال فروری میں مشتاق جنجوعہ کو اس ادارے کا چیئر مین مقرر کیا لیکن وہ بے اختیار ہیں۔ نئے قانون کے تحت ان کو صرف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔