چین کی سوشل میڈیا ایپلیکیشن ٹک ٹاک اس وقت دنیا کے مختلف ممالک کے عتاب کا نشانہ بنی ہوئی ہے جن میں اب نیدرلینڈز کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ڈچ حکومت اپنے حکام کے فون سے ٹک ٹاک ایپلیکیشن کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔
نیدرلینڈز کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس نے حکومت کی طرف سے تقسیم کیے گئے فونز پر ان ممالک کی طرف سے تمام ایپس کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی ہے جن کا ہدف ایک جارحانہ سائبر پروگرام ہے جس کا ہدف ڈچ مفادات ہیں۔
ٹک ٹاک کیا ہے اور اسے کتنے افراد استعمال کرتے ہیں؟
ٹک ٹاک ایک ایسی ایپلیکیشن ہے جو مختصر شکل کی ویڈیوز کے لیے وقف ہے اور اس کے 150 ممالک میں ایک ارب سے زائد فعال صارفین ہیں۔
کمپنی کے سی ای او کے مطابق صرف امریکا میں 15 کروڑ سے زیادہ لوگ ان کی ایپ کو استعمال کرتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں فیس بک کے تقریباً تین ارب فعال صارفین ہیں جبکہ انسٹاگرام ایک ارب 20 کروڑ بلین سے زائد افراد استعمال کرتے ہیں۔
ممالک کو ٹک ٹاک پر تحفظات کیوں؟
ٹک ٹاک کی طرف سے لاحق مبینہ سیکورٹی خطرات کے بارے میں خدشات سب سے زیادہ نمایاں طور پر امریکی قانون سازوں اور قومی سلامتی کے حکام نے اٹھائے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ایپ کے ذریعے جمع کیے گئے صارف کے ڈیٹا تک چینی حکومت رسائی حاصل کر سکتی ہے۔
امریکی انٹیلیجینس ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے نومبر میں کہا کہ ٹک ٹاک قومی سلامتی کے خطرات لاحق ہونے پر اسے سرکاری آلات سے ہٹانے کی ضرورت پیش آئی۔ مارچ میں رے نے سینیٹ کی انٹیلیجینس کمیٹی کو بتایا کہ چینی حکومت لاکھوں ڈیوائسز پر سافٹ ویئر کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹک ٹاک کا استعمال کر سکتی ہے اور تائیوان یا دیگر مسائل پر امریکیوں کو تقسیم کرنے کے لیے اپنا بیانیہ پھیلا سکتی ہے۔
یہ ایپ پہلی بار سنہ 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں سامنے آئی تھی جس نے امریکا میں ایپ اسٹورز سے شارٹ فارم ویڈیو ایپ پر پابندی لگانے اور اسے اہم تکنیکی خدمات سے منقطع کرنے کی کوشش کی تھی۔
ماہ رواں کے آغاز پر جو بائیڈن انتظامیہ نے ایک دو طرفہ بل کی حمایت کی جو واشنگٹن کو امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا اختیار دے گا۔
وسکونسن اور نارتھ کیرولینا سمیت کئی ریاستوں نے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ ڈیوائسز پر ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔
کون سے ممالک ٹک ٹاک پر پابندی لگا رہے ہیں؟
فروری 2023 میں کینیڈا نے بھی حکومت کی طرف سے جاری کردہ آلات پر ایپ کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ کاروبار سے لے کر نجی افراد تک کینیڈین اپنے ڈیٹا کی حفاظت پر غور کریں گے۔
ڈنمارک، بیلجیئم، بھارت، تائیوان اور یورپی یونین کے کئی اداروں جیسے یورپی پارلیمنٹ نے بھی ایسے ہی اقدامات کیے ہیں۔
اردن نے دسمبر 2022 میں ملک میں مظاہروں کے بعد ’تشدد اور افراتفری پھیلانے والی‘ پوسٹس کو ہٹانے میں ٹک ٹاک کی ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے ایپ پر پابندی لگا دی تھی۔
سنہ 2019 میں ہندوستان اور پاکستان نے ’اخلاقی مسائل‘ کی وجہ سے اس پر پابندی لگا دی تاہم دونوں نے پابندیاں کچھ عرصے بعد اٹھا لی تھی۔ چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے بعد بھارت نے جون 2020 میں اس ایپ پر دوبارہ پابندی لگا دی تھی۔
ٹک ٹاک کا موقف
ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکٹو شو زی چیو کا کہنا ہے کہ کمپنی نے کبھی بھی امریکی صارف کا ڈیٹا چینی حکومت کے ساتھ شیئر نہیں کیا اور نہ ہی ایسا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ٹک ٹاک کی بنیادی کمپنی بائٹ ڈانس کسی حکومت یا ریاستی ادارے کی ملکیت یا کنٹرول میں نہیں ہے۔ ان کے مطابق، بائٹ ڈانس کا 60 فیصد عالمی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کی ملکیت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کمپنی بلیک کروک، جنرل اٹلانٹک، اور سیکویا سمیت تقریباً 20 فیصد کمپنی کے بانیوں اور تقریباً 20 فیصد اس کے ملازمین کی ملکیت ہے جن میں ہزاروں امریکی بھی شامل ہیں۔
ماہ رواں کے آغاز میں ٹک ٹاک نے ایپ پر پابندی لگانے کے لیے سینیٹ کے بل کی حمایت کرنے کے وائٹ ہاؤس کے فیصلے پر مایوسی کا افسوس کا اظہارکیا تھا۔
چین کا رد عمل
فروری کے آغاز میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا تھا کہ امریکا نے ابھی تک اس بات کے ثبوت پیش نہیں کیے ہیں کہ ٹک ٹاک اس کی قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا ڈیٹا سیکیورٹی کے بہانے غیر ملکی کمپنیوں کو دبانے کے لیے اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سیکیورٹی کے مسائل کو کچھ ممالک کے لیے قومی سلامتی کے تصور کو بڑھانے، ریاستی طاقت کا غلط استعمال کرنے اور دوسرے ممالک کے اداروں کو بلاجواز دبانے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔