موجودہ وقت میں جب زمین شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہے اور جنوبی ایشیا کے کئی علاقوں میں درجہ حرارت 05 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر پہنچ چکا ہے، ایسے میں سائنسدانوں نے زمین کو مزید گرم ہونے سے روکنے کا ایک آسان اور سستا طریقہ ڈھونڈا ہے، ہر شخص یہ طریقہ کار اپنا کر زمین کے درجہ حرارت میں کمی لانے میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
آسٹریلیا کے جارج انسٹیٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اور لندن کے امپیریل کالج کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم اپنے کھانے پینے کی چیزوں کے ملتے جلتے ماحول دوست متبادل کا استعمال شروع کر دیں تو گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج 26 فیصد سے زیادہ کم ہوسکتا ہے۔
تحقیق میں اس کی وضاحت ایک مثال سے کی گئی ہے کہ اگر پاستا کو گوشت کی بجائے سبزیوں کے ساتھ پکایا جائے تو کاربن گیسوں کے اخراج میں 71 فی صد تک کمی ہوسکتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی کی جانب راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ اس کے فائدے کیا ہیں اور کھانے پینے کی چیزوں کے پیکٹوں پر یہ لکھا جانا چاہیے کہ اس سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کتنی کمی ہوئی ہے۔
زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنے کے لیے خوراک کے استعمال پر یہ پہلا تفصیلی سائنسی مطالعہ ہے، جس میں خوراک کی خریداری سے متعلق لوگوں کی عادات کا ماحول پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس تحقیق میں سپر مارکیٹوں میں کھانے پینے کی ہزاروں اشیا کا ڈیٹا شامل کیا گیا ہے اور ان کی تیاری میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی مقدار بتائی گئی ہے۔
تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر ایلی سن گینز کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اگر ہم کاربن گیسوں کے اخراج کے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کھانے پینے کی عادات میں نمایاں تبدیلیاں اپنانا ہوں گی، اگر صارفین خوراک اور کھانے پینے کی عادات کے ماحول پر اثرات سے آگاہ ہوں گے تو وہ اپنی پسند کے بہتر متبادل ڈھونڈ سکیں گے۔
اس تحقیق میں آسٹریلیا کے 7 ہزار گھرانوں کا انتخاب کیا گیا ہے ، ان گھرانوں کٰی خوراک میں شامل 22 ہزار سے زیادہ چیزوں کا ڈیٹا بھی اس تحقیق کا حصہ ہے، جس میں سادہ روٹی سے لے کر برگر تک شامل ہیں اور اس بارے میں اعداد و شمار دیے گئے ہیں کہ ان کی تیاری میں کاربن گیسوں کی کتنی مقدار خارج ہوتی ہے۔
تحقیق میں شامل کئی اعداد و شمار بڑے دلچسپ ہیں، مثلاً گراسری اسٹوروں کی مجموعی خریداریوں میں گوشت کی مصنوعات کا حصہ صرف 11 فی صد ہے جب کہ اس کی تیاری میں کاربن گیسوں کا اخراج کا حصہ 49 فی صد ہے۔
اسی طرح کل خریداریوں میں سبزی اور پھلوں کا حصہ تقریباً 25 فی صد ہے، جب کہ ان کی کاشت سے لے کر صارف کے استعمال تک کاربن گیسوں کے کل اخراج میں وہ صرف 5 فی صد کے حصے دار ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کاربن گیسوں کے کل اخراج میں زراعت کے شعبے کا حصہ ایک تہائی ہے، جبکہ اس سے ماحول اور صحت کے نظام کو ہر سال 14 ٹریلین ڈالر تک کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے سالانہ ایک کروڑ 20 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں، اگر صرف زراعت کے شعبے کی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو پا لیا جائے تو ان گیسوں کے سبب ہونے والی انسانی ہلاکتوں کو روکا جا سکتا ہے۔