امریکی صدر بائیڈن نے آخر کار یورپ کا پریشر تسلیم کیا اور یوکرین کو ویسٹرن ہتھیار روس کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے دی، یوکرین کو اب تک ہاتھ باندھ کر لڑایا جارہا تھا۔ جرمنی اور امریکا نہیں چاہتے تھے کہ یوکرین کوئی ایسی اسٹرائیک روسی حدود کے اندر کرے جس پر روس مشتعل ہوجائے جبکہ فرانس اور برطانیہ ایسے حملوں کی حمایت کررہے تھے۔
اصل مسئلہ روس کی نیوکلیئر ڈاکٹرائین ہے۔ اس کے مطابق روس تب نیوکلیئر اسٹرائیک کرے گا جب اس کی سلامتی کو اتنا خطرہ ہو کہ اس کا وجود ہی خطرے میں پڑجائے۔ سارا حساب لگا کر یوکرین کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ ایسی روسی ملٹری انسٹالیشن کو نشانہ بنا سکتا ہے جہاں سے یوکرین پر حملے ہورہے ہوں۔
یوکرین نے اب تک کی جنگ میں اپنی ڈرون حملوں کی صلاحیت کو بہت بڑھایا ہے جبکہ روس نے الیکٹرانک وار فیئر کی اپنی صلاحیت کو اپ گریڈ کرلیا ہے۔ یوکرین کے صدر اور ان کے جرنیلوں میں اختلاف ہے۔ یوکرین کے صدر چاہتے ہیں کہ روس کے اندر ایسے حملے کیے جائیں جس سے روسی عوام کو اپنی قیادت کے بارے میں شک پیدا ہوکہ کیا وہ اپنے لوگوں کی حفاظت کرنے کے قابل بھی ہے، زیلنسکی یہ بھی چاہتے ہیں کہ جنگ پر روسی خرچ کو بڑھا دیا جائے، وہ روس کی انرجی انسٹالیشن کو ٹارگٹ کرنے کے بھی حامی ہیں۔
دوسری جانب یوکرین کے جنرل کہتے ہیں کہ ہماری صلاحیت بس اتنی ہی ہے۔ ہم یا تو روس کے اندر انرجی انسٹالیشن کو ٹارگٹ کریں یا پھر یوکرین کے اندر اس کے حملوں کو روکیں۔ امریکی اجازت کے بعد یوکرین نے روس کے ایک میزائل دفاعی نظام کو ٹارگٹ کرکے ایس 300 اور 400 میزائل سسٹم کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔
روس کے صدر نے حال ہی میں چین کا دورہ کیا تھا۔ روس اور چین نے طے کررکھا ہے کہ دونوں ملکوں کے سربراہ باری باری سال میں ایک بار دوسرے کے ہاں جائیں گے۔ اس سال روسی صدر بیجنگ پہنچے تو اگلے سال چینی صدر جوابی دورہ کریں گے۔ اس دورے میں صدر پوتن کو ایک سیٹ بیک ہوا ہے۔
یوکرین کی جنگ کے بعد یورپ نے روس سے انرجی لینے پر کٹ لگایا ہے۔ پچھلے ایک سال میں روس کو یورپ سے کم خریداری کی وجہ سے 7 ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہوا ہے۔ یورپ کے انکار کے بعد روس سائبیریا ٹو پائپ لائن پر فوکس ہوگیا۔ یہ پائپ لائن منگولیا کے راستے چین کو انرجی فراہمی کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے، روسی صدر کے دورے کے بعد خبریں آرہی ہیں کہ اس پائپ لائن کے حوالے سے تعطل آگیا ہے۔
یہ تعطل چین کی طرف سے انتہائی کم قیمت پر انرجی خریدنے کی آفر پر آیا ہے۔ روس اپنے شہریوں کو بہت سبسڈائزڈ ریٹ پر گیس فراہم کرتا ہے۔ چینی مطالبہ ہے کہ اس سبسڈائزڈ ریٹ جیسی قیمت پر ہی اسے بھی گیس دی جائے۔ یہ جنگ کا نقصان ہے کہ روس کا جونیئر یا برابر کا پارٹنر چین اب سینیئر پارٹنر بننے کی کوشش کررہا ہے۔ اس سے یہ بھی پتا لگتا ہے کہ بزنس میں اپنا فائدہ دیکھا جاتا ہے، دوستی، تعلق، مشکل وغیرہ صرف کتابوں ہی کی باتیں ہیں۔
انرجی فراہم کرنے والے دنیا کے اہم سینٹر اس وقت جنگ زدہ ہیں۔ روس نے اپنا شغل یوکرین میں لگا رکھا ہے۔ روس انرجی کا بڑا فراہم کنندہ ہے تو یوکرین فوڈ آئٹم کا، اسی وجہ سے دنیا بھر میں ریٹ اوپر نیچے ہوگئے۔ کوئی کسر تھی تو اسرائیل، حماس کی لڑائی سے پوری ہوگئی۔ انرجی روٹس پر سپلائی چین تو متاثر نہیں ہوئی رسک فیکٹر بڑھ گیا۔
تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک پلس اب تک پروڈکشن کٹ لگا رہی تھی۔ اب آنے والے مہینوں میں امریکی الیکشن سے پہلے 5 لاکھ بیرل روزانہ کا سپلائی میں اضافہ کرے گی۔ یہ اضافہ 18 لاکھ بیرل روزانہ تک اگلے ڈیڑھ دو سال میں پہنچ جائے گا۔ ماہرین کے مطابق سپلائی بڑھنے سے تیل کی قیمت کم ہو گی۔ اس سب پر طرح طرح کے تبصرے کیے جارہے ہیں۔ انرجی کی قیمت قابو میں رہے گی تو امریکا جہاں صدارتی الیکشن ہونا ہے وہاں کا ووٹر مہنگی انرجی خریدنے سے بچ جائے گا اور جو بائیڈن کو اس کا فائدہ ہوگا۔
ادھر کچھ سوال ہیں، کیا روس سستی انرجی بیچ کر مہنگی جنگ جاری رکھے گا؟ بات کسی سمجھوتے کی طرف گئی تو دنیا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کم ہونے لگے گی جس کا فائدہ ہم پاکستانیوں کو بھی ہوگا۔