بھارت میں انتخابات سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنی جیت کے لیے بیحد پرعزم و پراعتماد نظر آرہی تھی لیکن انتخابی نتائج نے سب کو حیران کر دیا۔ بی جے پی نے 400 نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم وہ 240 نشستیں ہی حاصل کر پائی۔ انتخابی نتائج کے اعتبار سے بی جے پی وفاق میں حکومت تو بنا لے گی لیکن یہ پاکستان کے ساتھ کس طرح کے تعلقات استوار کرے گی اس کا اندازہ آنے والے کچھ مہینوں میں ہو جائے گا۔
بھارتی مسلمانوں نے انتہائی مایوسی میں کانگریس کو ووٹ کیا، ڈاکٹر ماریہ سلطان
ساؤتھ ایشین اسٹریٹجک اسٹیبلیٹی انسٹیٹیوٹ کی چیئرپرسن ڈاکٹر ماریہ سلطان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کا کم نشستیں لینا پاکستان کے لیے خطرناک ہے کیونکہ ایک اندرونی طور پر کمزور حکومت شدت پسندی کو مزید فروغ دے کر اور پاکستان کے خلاف اپنے بیانیے کو مزید سخت کر کے بھارت میں اپنی اخلاقی حیثیت منوانے کی کوشش کرے گی۔
مزید پڑھیں
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ اس دوران ہو سکتا ہے کہ بھارت کی پاکستان کے خلاف انٹیلیجنس کارروائیاں مزید بڑھ جائیں کیونکہ بی جے پی کے 2 اہم رہنما امت انیل چندرا شاہ اور اجیت دوول جارحانہ عسکری پالیسیوں پر یقین رکھتے ہیں اور اجیت دوول تو پاکستان کے خلاف عسکری کارروائیوں میں ملوث بھی رہے ہیں.
انہوں نے کہا کہ 240 نشستوں کا مطلب ہے کہ بی جے پی بھارت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جبکہ کانگریس نے ایک اتحاد کے تحت انتخاب لڑا ہے جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے لیکن ایک مضبوط اپوزیشن کی موجودگی میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھارت میں انتشار بڑھے گا اور بھارتی حکومت اپنی اخلاقی برتری کے لیے بیرونی طور پر انحصار کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کا امریکا کے ساتھ الحاق مزید مضبوط ہو گا اور چین کے خلاف اس کی مخاصمت و مخالفت مزید بڑھے گی۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ اترپردیش اور مغربی بنگال بی جے پی کے مضبوط حلقے تھے لیکن یہ وہاں سے ہار گئی جس کی وجہ ان علاقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونا ہے اور شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی ان حلقوں میں اپنی جیت کے حوالے سے حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب تشویشناک بات یہ ہے کہ تری پورہ، ناگالینڈ، کشمیر جیسی چھوٹی ریاستوں سے بی جے پی جیت گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ بھارت میں نوجوان ووٹر بی جے پی کے شدت پسند نظریے سے متاثر ہوا ہے اور اس جماعت کا شدت پسند اور انتہا پسند رویہ ہے چھوٹی ریاستوں میں بھی منتقل ہوچکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں بی جے پی بڑی ریاستوں پر توجہ نہیں دے سکی اور گورننس کے مسائل کی وجہ سے اسے وہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
’حالیہ انتخابات مسلمانوں کے لیے 3 جون 1947 والی صورتحال سے مماثلت رکھتے ہیں‘
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے حوالے سے یہ انتخابات بہت اہم تھے اور یہ بالکل 3 جون 1947 سے مماثل ایک صورتحال ہے جب مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر مسلم لیگ کو ووٹ دیا تھا جس سے برطانوی سامراج کو پاکستان کی صورت میں ایک الگ ملک قائم کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ 3 جون 1947 سے قبل مسلمان ووٹر منقسم تھا اور وہ مختلف سیاسی جماعتوں کو ووٹ کیا کرتا تھا لیکن اس وقت مسلمانوں نے مایوسی کی کیفیت میں مسلم لیگ کو ووٹ کیا تو برصغیر کی تقسیم ممکن ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں مسلمانوں نے بالخصوص ایک مایوسی کی کیفیت میں کانگریس کو ووٹ دیا ہے۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس کی سیاسی جیت تھی لیکن دراصل یہ ایک سیاسی ہار ہے کیونکہ بھارت میں تقسیم بہت بڑھ گئی ہے۔
بھارتی پارلیمان میں مضبوط اپوزیشن کی موجودگی مثبت تبدیلی ہے، سید محمد علی
ماہر امور قومی سلامتی سید محمد علی نے وی نیوز سے گفتگو کے دوران بی جے پی کے مایوس کن نتائج کی بنیادی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاسی حکمت عملی میں وزیراعظم مودی کی شخصیت اور مقبولیت پر غیر حقیقت پسندانہ حد تک انحصار، ہندو انتہا پسند سوچ، مسلمان، عیسائی، سکھ اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے مسائل اور خدشات سے صرف نظر وہ محرکات ہیں جن کی عکاسی بی جے پی کی حالیہ انتخابی مہم میں سامنے آئی۔
سید محمد علی نے کہا کہ اگرچہ بی جے پی کو ان انتخابی نتائج سے یقینی طور پر مایوسی ہوئی ہے لیکن قدامت پسند اور ہندو انتہا پسند حلقوں میں ان کی مقبولیت اور پذیرائی بدستور قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ انڈین نیشنل ڈویلپمنٹ انکلوسیو الائنس میں کانگریس سمیت شامل دیگر جماعتوں نے بی جے پی کی انتہا پسندانہ سوچ، معاشی مسائل سے بے اعتنائی اور اقلیتوں کے خدشات کو کامیابی سے اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں بی جے پی کی قیادت میں ایک کمزور اتحادی حکومت کا ظہور اور ایک مضبوط اور پر اعتماد اپوزیشن کی لوک سبھا میں موجودگی بی جے پی کی انتہا پسند سوچ میں تو شاید تبدیلی نہ لا سکے لیکن ان کے متشدد رویے اور خطے کے بارے میں جارحانہ عزائم پر مثبت انداز میں اثر انداز ہونے اور دباؤ ڈالنے کا باعث بن سکتی ہے جو خطے کے لیے اہم ہو گا۔