وفاقی حکومت کی جانب سے عمران خان کے اڈیالہ جیل میں قید تنہائی کے دعوے کو چیلنج کرنے کے لیے تصویری ثبوت پیش کیے جانے کے بعد، سابق وزیراعظم نے سپریم کورٹ سے اپنے جیل سیل کے معائنے کا حکم دینے کی استدعا کی ہے۔
مزید پڑھیں
گزشتہ روز نیب ترامیم سے متعلق حکومتی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران عمران خان کے اس مطالبے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی عدالتی افسر کو محتاط جانچ پڑتال کے لیے تفویض کر سکتی ہے، لیکن انہوں نے اس ضمن میں کوئی تاریخ تجویز نہیں کی۔
5 ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ نے قومی احتساب آرڈیننس میں ترامیم کو غیر قانونی قرار دینے والے 15 ستمبر کے اکثریتی فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
کارروائی کے اختتام پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے عمران خان کے جیل سیل کی تصاویر کے ساتھ رپورٹ پیش کی ہے، جس میں ستمبر 2023 سے 30 مئی 2024 تک عمران خان کے ملاقاتیوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ اگر عدالت ضروری سمجھے تو حکومت کی جانب سے پیش کردہ حقائق کی تصدیق کے لیے کمیشن کی صورت میں ایک جوڈیشل افسر کا تقرر کر سکتی ہے
حکومتی رپورٹ کے مطابق عمران خان کو جیل میں دستیاب سہولیات میں ایل ای ڈی اسکرین، روم کولر، اسٹڈی ٹیبل اور کرسی، دن میں دو بار چہل قدمی کے لیے ایک خصوصی کوریڈور، ان کے طے کردہ مینو کے ساتھ علیحدہ کچن، کتابیں، ایک ایکسرسائز بائیک اور فٹنس کے لیے اسٹریچنگ بیلٹ شامل ہیں۔