طرزِ تخاطب میں شیری رحمان کی جانب سے صنفی مساوات کی تلقین کیوں؟

جمعہ 7 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق وفاقی وزیر شیری رحمان دفتر اور عوامی مقامات پر عمومی طور پر لوگوں کے طرز تخاطب میں پوشیدہ صنفی عدم مساوات سے سخت نالاں ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس موضوع پر نہایت شائستہ پیرایہ اظہار میں اپنی شکایت میں درج کراتی نظر آتی ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر رہنما پیپلز پارٹی نے ایک منفرد شکایت پوسٹ کرتے ہوئے اپنے آفس کے ساتھیوں اور عوامی اجتماعات کا حصہ بننے والے شہریوں سے درخواست کی ہے کہ کام کاج کے رسمی مقامات پر خواتین کو بھی مردوں کی طرح مخاطب کرنے کے لیے مناسب معیار بروئے کار لائیں۔

اس ضمن میں اپنی تلقین کی وضاحت کرتے ہوئے سابق صحافی اور سفارتکار شیری رحمان کا موقف ہے کہ اگر آپ کمرے میں موجود دیگر تمام مردوں کو ان کے پورے نام کے ساتھ ساتھ کسی سابقے مثلاً صاحب جیسے لفظ کا بھی استعمال کررہے ہیں تو ہمارے پہلے ناموں سے ہمیں مخاطب نہ کریں۔

’مجھے افسوس ہے لیکن میں آپ کو صرف “شیری” کہنے کی اجازت نہیں دے سکتی اگر میرے ساتھ دیگر ساتھیوں کو احترام کے طور پر ان کے ناموں کے ساتھ صاحب لگا کر مخاطب کررہے ہیں۔۔۔ مجھے شیری کہلائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں اگر آپ میرے دوسرے مرد ساتھیوں کو بھی ان کے پہلے نام سے مخاطب کرتے ہیں۔‘

اپنی شکایت کو شائستگی کے ساتھ انگریزی میں ضبطِ تحریر لاتے ہوئے شیری رحمان نے سماجی رابطوں میں استوار ایک اور ابلاغی مسئلہ کو اجاگر کیا ہے اور اس ضمن میں انہوں نے اپنی عمر کے حوالے سے خواتین کی روایتی جھجھک کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔

’آپ بلا جھجھک مجھے خالہ یا آنٹی کہہ سکتے ہیں اگر آپ کی اس سے تسلی ہوتی ہے، لیکن براہِ کرم مجھے لڑکی کہہ کر مخاطب نہ کریں، چاہے آپ (مجھ سے) بڑے ہی کیوں نہ ہوں، شفقت سے بھی نہیں، عوامی زندگی کے ایک طویل عرصے کے ساتھ میری عمر 63 سال ہے، جو کسی محفل میں عزت کے ساتھ اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے بہت ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp