وہ لفظوں کا جادُو گر تھا۔ تاریخ کے پنوں میں ایسے چند ایک نام ہی ہیں جو لفظوں سے دھاک بٹھا سکتے ہیں۔ زیادہ تر طاقتور لوگوں کا اصل ہتھیار خاموشی ہوتا ہے۔ کئی مشہور و معروف لوگ نپی تلی بات کو ترجیح دیتے ہیں اور ہمیشہ کم گو ہوتے ہیں۔ ٹام کروز کو ہی دیکھ لیں، مداحوں کے لیے بولتا ہی نہیں۔ یا بالی ووڈ کے معروف اداکار عامر خان کا کوئی انٹرویو ہی سن لیں، آپ کو خاموشی کے وقفے بتائیں گے کہ یہ لوگ جملوں کے مابین اک خلا پیدا کرتے رہتے ہیں جس میں انہیں بات بنانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ یہ میڈیا پہ بہت کم آتے ہیں، چونکہ ان کا کام بولتا ہے لہذا ان کی خاموشی ان کی ایک چال ہوتی ہے۔
عامر لیاقت حسین ان سے مختلف کردار تھا۔ وہ خاموشی کی بجائے لفظوں سے دھاک بٹھاتا تھا۔ اسے کون سی جگہ کون سا لفظ استعمال کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے، اس کا علم تھا یا نہیں مگر اتنا علم ضرور تھا کہ کس لفظ کے ٹھیک استعمال سے سننے والے لہرا اٹھیں گے اور وہ یہی کرتا تھا۔ بلا کا اداکار تھا وہ شخص۔ یہ لفظوں کی جادو گری ہی تھی کہ وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک نامور مقرر، خطیب اور ڈیبیٹر رہا۔ چونکہ اس کا خاندانی پس منظر متحدہ قومی موومنٹ کی سیاست سے جڑا تھا لہذا وہاں بھی قسمت آزمائی اور مشرف کے زمانے میں وزیر مذہبی امور کے منصب پر فائز رہے۔ پھر ایم کیو ایم کی سیاسی جماعت میں ان کی طویل عرصہ تک خدمات ہیں۔
آخر میں انہوں نے تحریک انصاف جوائن کی اور یوں ان کے سیاسی کیرئر کا یہیں اختتام ہوتا ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے منجھے ہوئے سیاستدانوں میں بھی کوئی عامر لیاقت حسین جیسا مقرر نہیں تھا۔ وہ لفظوں کے کھیل کو خوب جانتا تھا۔ ٹاک شوز ہوں، اسمبلی ہال ہو یا پھر کوئی سیاسی تقریب، لوگ عامر لیاقت کی سحر انگریز گفتگو کو دوسروں سے زیادہ آسانی سے سمجھ لیتے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ لوگ کب تالیاں بجاتے ہیں اور کب نہیں۔ عامر لیاقت حسین وہ مقرر تھا جسے اس بات کا علم تھا کہ لوگ کیا سننا چاہتے ہیں۔ لہذا وہ ہمیشہ وہی سناتا تھا جو لوگ سننا چاہتے تھے اور لوگ محو ہو کر سنتے تھے۔
آج تک لوگ یہ نہیں سمجھ سکے کہ وہ سیاست دان تھا، مقرر تھا، ٹی وی ہوسٹ تھا، مذہبی سکالر تھا، کامیڈین تھا یا ایک شاعر تھا؟ لیکن اگر عامر لیاقت کی شخصیت کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا اداکار تھا جو اتنے دل سے اداکاری کرتا رہا کہ ہم اسے حقیقت ہی سمجھتے رہے۔ درحقیقت وہ ایک پڑھا لکھا انسان تھا جو معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں پر اندر ہی اندر کڑھتا تھا۔ اس کا اظہار اس نے کئی بار اپنی نظموں میں کیا بھی ہے اور اگر اس انسان کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو جا بجا یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ حساس تھا۔ زندگی کی تلخیوں کے ساتھ ساتھ اسے سماج میں ہونے والی ناانصافیوں نے اس نہج پر پہنچایا کہ اسے ڈیپریشن کا مرض لاحق ہوا۔
جو انسان خود عملی سیاست میں قریب 2 دہائیوں تک حصہ لیتا رہا۔ اپنی تلاش میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے جڑتا اور کٹتا رہا اور ڈیپریشن کی وجہ سے ایک سے زیادہ بار خودکشی کی کوشش کی تو کیا یہ محض اس لیے تھا کہ اس کی پسند کی شادی نہیں ہوئی یا اس کا کسی نے دل توڑا؟ عامر لیاقت حسین نے 3 شادیاں کیں اور یقیناً کئی محبتیں بھی کی ہوں گی۔ ایسا ہر گز نہیں۔ حساس انسان کے اندر لگنے والی ضمیر کی عدالت اسے اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ جب اسے اپنا جرم اپنی ذات سے بڑا محسوس ہونے لگے تو وہ اپنی جان لے لیتا ہے۔
زمانے میں جو عامر لیاقت کا ظاہری ایمیج بن چکا تھا، یقین جانیے اصل میں ہم سب بھی وہ عامر لیاقت ہیں۔ اور اصل عامر لیاقت حسین وہ تھا جو خود پہ کڑھتا تھا۔ معافی ناموں اور اپنی بے بسی میں لپٹی ہوئی نظمیں لکھ کر یہ اظہار کرتا تھا کہ وہ محبت اور امن چاہتا ہے مگر محبت اور امن کی فضا قائم کرنے کے لیے اس کے پاس طاقت نہیں اور جن کے پاس یہ طاقت ہے وہ نفرت اور ظلم کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اسی کشمکش میں الجھا عامر لیاقت حسین خود کو کبھی مذہب تو کبھی بین المسالک ہم آہنگی میں تلاش کرتا رہا۔ کبھی سیاست اور کبھی صحافت اور ہوسٹنگ میں ڈھونڈتا رہا۔ وہ ہر جگہ اپنی چھاپ چھوڑ کر گیا۔
عامر لیاقت نے ہی رمضان ٹرانسمیشنز کی بنیاد ڈالی۔ اس کی گفتگو میں محض بھونڈی حرکتیں، معیار سے گری ہوئی باتیں تلاش کرنے والے یا اس پہ میمز بنانے والے یہ تک بھول گئے کہ وہ ہر بات کا جواب بہت معتبر طریقے سے دیتا تھا اور انسان ہونے کے ناطے غلطیاں تسلیم بھی کرتا تھا۔ میمز بنانے والوں کو میمز بنانے کی اجازت بھی دیتا تھا۔ اور جہاں اپنا دفاع کرتا تھا تو بھرپور کرتا تھا۔
مجھے بچوں کی طرح روتا ہوا عامر لیاقت بھلے اداکار ہی لگتا ہو مگر اس کی موت یہ بتاتی ہے کہ وہ تنہائی میں زندگی کی حقیقتوں پر کئی بار رویا ہو گا۔ آج وقت یہ ثابت کرتا چلا جا رہا ہے کہ عامر لیاقت کی نجی زندگی میں مداخلت کرنے والوں کی ایک بھونڈی حرکت ہم سے اس لفظوں کے جادوگر کو چھین کر لے گئی، جو یقینا کسی قتل سے کم نہیں۔ بے شک جو خودکشی کرتے ہیں، سماج ان کا قاتل ہوتا ہے۔