برصغیر میں بہت سی نامور ہستیوں کو کرکٹ سے گہری دلچسپی رہی ہے۔ ان میں سے بعض نے بچپن میں کرکٹر بننے کا خواب دیکھا۔ اس ضمن میں میرے ذہن میں سب سے پہلے فیض احمد فیض کا نام آتا ہے۔
نامور شاعر افتخار عارف نے ایک مکالمے میں، جس میں ان کے ساتھ معروف شاعر احمد فراز بھی شریک تھے، فیض صاحب سے پوچھا :
’’عام طور سے آپ کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ آپ نے انتہائی بھرپور زندگی گزاری ہے اور بڑی کامیاب زندگی گزاری ہے۔ کبھی کوئی پچھتاوا بھی آپ کو ہوا ہوگا؟‘‘
اس پر فیض صاحب نے کہا: ’’ایک پچھتاوا تو ہے کہ جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ہماری Ambition یہ تھی کہ ہم ایک بڑے کرکٹر بنیں۔ ابھی تک کبھی کبھی ہم خواب میں دیکھتے ہیں کہ ہم بہت بڑے ٹیسٹ کرکٹر ہیں اور کرکٹ میچ کھیل رہے ہیں۔ ایک تو ہم کرکٹر نہیں بن سکے۔ یہ بہت بڑا پچھتاوا ہے۔‘‘
ادب سے اس مثال کے بعد ہم شوبز کی طرف مڑتے ہیں اور ممتاز اداکار نصیر الدین شاہ کی کرکٹ سے لگاوٹ کا قصہ بیان کرتے ہیں جس کے آغاز کے لیے ہم نے ریڈیو پاکستان سے ان کے ایک انٹرویو میں سے یہ قول چنا ہے:
“کرکٹ کا میں بالکل دیوانہ ہوں”
اس سے ملتی جلتی بات وہ ٹی وی شو ‘ مڈ وکٹ ٹیلز’ کی میزبانی کے دوران بھی کرتے تھے :
”…میں بھی کرکٹ کا دیوانہ ہوں“
نصیر الدین شاہ کی کرکٹ سے دلچسپی کے بارے میں میری معلومات کا بنیادی ماخذ ان کا وہ مضمون ہے جو انڈیا کے سابق کپتان منصور علی خان پٹودی پر سریش مینن کی مرتبہ کتاب ’پٹودی: نواب آف کرکٹ‘ میں شامل ہے۔
اس کا عنوان ہے :
Sighting the Tiger in extreme long shot .
اس میں اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے نصیرالدین شاہ نے جو تمہید باندھی، اس میں بچپن اور لڑکپن میں کرکٹ سے مجنونانہ وابستگی کی داستان دلچسپ پیرائے میں رقم کی ہے جس سے معلومات کشید کر کے ہم اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں۔
1957 میں آٹھ سال کی عمر میں کرکٹ کے بخار نے انہیں آلیا۔اس کے بعد درجہ حرارت بڑھتا ہی گیا۔کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ انہیں کھلاڑیوں کے کارناموں کی بھی خوب خبر رہتی ۔ بچپن کی یادوں میں سے ایک یاد 1958 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستانی بلے باز حنیف محمد کی ٹرپل سنچری ہے۔کرکٹروں کے کارہائے نمایاں اپنی جگہ لیکن وہ شخصی اعتبار سے بھی انہیں بہت پُرکشش لگتے تھے۔ نصیرالدین شاہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
”میرے لیے ٹیسٹ کرکٹر نیم دیوتا تھے۔وہ سفید لباس میں بہت پُرسکون معلوم ہوتے تھے۔ ان کی تصویریں اخباروں میں چھپتی تھیں۔ وہ فلمی دیویوں کو ڈیٹ کرتے تھے۔ وہ کرکٹ کھیلنے کے لیے انگلینڈ جاتے تھے۔ اس کے بعد وہ سوٹ پہنتے۔پارٹیوں میں حصہ لیتے۔ اور انہیں معاوضہ ملتا تھا۔ ایک دفعہ کھیلنے کے لیے ہزار روپیہ جو میرے والد کی ماہانہ تنخواہ کے برابر تھا…
بھارت میں کسی کرکٹر کو دیکھنا کسی فلمی ستارے کو دیکھنے کے مترادف تھا بلکہ کم از کم میرے لیے کسی کرکٹر کو دیکھنا زیادہ سنسنی خیز تھا…کچھ دیر کے لیے مجھ پر یہ جوش طاری تھا کہ میں کسی دن بھارت کے لیے کھیلوں گا لیکن پھر میں نے آسان تر آپشن (ادا کاری) اختیار کیا۔“
سکول کی ٹیم کے لیے انہیں کھیلنے کے کچھ موقعے ملے لیکن وہ ان میں کچھ خاص نہ کرسکے، اس سے مگر ان کی دیوانگی میں کمی نہیں آئی۔ ہر وقت کرکٹ کا خیال ذہن پر حاوی رہتا۔ خیالی دنیا میں کرکٹ کے مشہور کھلاڑیوں کے انداز میں اپنے جوہر دکھاتے۔ ٹیسٹ میچ کا مکمل سکور کارڈ نقل کرتے۔ پاکستان اور انڈیا کی مشترکہ خیالی ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کا چناؤ کرتے۔ان کے بقول”میری تمام توانائیاں کرکٹ پر خرچ ہوتی تھیں۔ اور میرا سارا وقت کرکٹ کے بارے میں سوچنے میں گزرتا تھا ۔۔۔پڑھائی جیسی غیر اہم چیزوں کے لیے کچھ وقت نہ بچتا۔“
رفتہ رفتہ ان کی دلچسپی کا محور بدل گیا۔ کرکٹ کے بجائے فلم اور تھیٹر میں جی لگنے لگا لیکن کرکٹ کے خیال سے یکسر غافل نہیں ہوئے۔ جیب خرچ کا ایک تہائی ’سپورٹس اینڈ پاس ٹائم‘ میگزین خریدنے پر صرف ہوتا، اچھی طرح استفادے کے بعد اس کی چیر پھاڑ ہوتی تاکہ سکریپ بک کو ضخیم بنایا جاسکے۔
نصیر الدین شاہ کے بقول ”کرکٹ کے تراشوں کا جتنا بڑا ذخیرہ میرے پاس تھا سکول میں کسی اور کے پاس نہ تھا۔”
قارئین کے ذہنوں میں کرکٹ کے ایک پُر شوق شائق کا نقش جمانے کے بعد وہ منصور علی خان پٹودی کے تذکرے کی طرف آتے ہیں۔ تصویری البم میں ان کی تصویر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہیں بڑی نفاست سے سویپ شاٹ کھیلتے دکھایا گیا تھا۔ تصویر کے نیچے یہ عبارت درج تھی:
‘’آکسفورڈ کا نیا کپتان نواب آف پٹودی اپنے پرانے حریف کیمبرج کے خلاف سنچری کی طرف بڑھ رہا ہے‘’
ان کے البم میں ایک مزے کی تصویر آکسفورڈ گریجویٹ عباس علی بیگ کی تھی جنہیں ٹیسٹ میچ میں نصف سنچری کرنے پر ایک لڑکی نے بیچ میدان میں آکر چوما تو اس “تاریخی “واقعے کو کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا تھا۔
نصیر الدین شاہ کے ذہن میں پٹودی کی شخصیت کا گہرا تاثر ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور اعدادو شمار کے گورکھ دھندے کی وجہ سے نہیں جما کیونکہ ان چیزوں کی انسانی یادداشت میں موجودگی عارضی ہوتی ہے۔ ان کے دماغ میں یہ بات ہمیشہ راسخ رہی:
”مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ پٹودی ذاتی طور پر کس تجربے کا احساس ہوا کرتا تھا۔ ریڈیو پر وی ایم چکرپانی یا دیو راج پوری کو یہ کہتے سننا کہ ”میدان میں ایک پھرتیلا نوجوان ہے جس میں چیتے کی سی لپک جھپک ہے“ کسی تصویر کو ہو بہو سامنے لے آنے کی مشق سے مشابہ تھا۔“
1962 میں ویسٹ انڈیز میں انڈین کپتان ناری کنٹریکٹر بری طرح گھائل ہو کر کھیلنے کے قابل نہ رہے تو ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری پٹودی کے سپرد ہوئی۔ نصیر الدین شاہ کی دلی ہمدردی نئے کپتان کے ساتھ تھی۔ انہیں یہ فکر بھی تھی کہ نوجوان پٹودی کو نہ صرف ہیلمٹ کے بغیر چارلی گرفتھ کا سامنا کرنا ہو گا بلکہ ”اتنی کم عمری میں ایسی ٹیم میں نئی روح پھونکنی ہو گی جس پر بجا طور پر ہوش و حواس سُن کر دینے والی دہشت کا غلبہ تھا۔“
پٹودی سے بعد میں نصیر الدین شاہ کی صاحب سلامت ہو گئی۔ یہ اپنے ہیرو کی شخصیت کا گہرا مطالعہ ہی ہے جو انہوں نے بڑی جامعیت سے ان کی اس قدر خوبصورت لفظی تصویر کھینچی ہے:
”مجھے جتنے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، ان میں ٹائیگر کو سب سے پُر ظرافت انسان پایا۔ اس کے علاوہ وہ دوسروں کے بارے میں انتہائی متجسس بھی تھا اور یہ وصف ان شخصیتوں میں کم کم پایا جاتا ہے جو بہت مشہور ہوں۔اس کی رفاقت میں یہ امر مجسم ہو کر سامنے آجاتا تھا کہ عظمت کو بوجھ کے بجائے کس طرح ہلکی پھلکی شے سمجھا جائے۔ باقی تمام معاملات میں بھی اس کا انداز کسی شے کو بوجھ بنا لینے کا نہ تھا۔ ایک آنکھ کی بینائی سے محرومی، شہرت، بدنامی، کپتانی کا حصول، کپتانی چھن جانا،کپتانی کااز سر نو حصول، الیکشن میں ووٹوں کا خواستگار ہونا، بری طرح ہزیمت خوردگی، شکار، اور یہ بات تو رہی ہی جاتی ہے کہ اس نے فلمی دنیا کی سب سے حسین خاتون( شرمیلا ٹیگور)سے عشق لڑایا اور اسے بیوی بھی بنا لیا۔“
پٹودی کے بارے میں مضمون سے ہم نے جو بیان کرنا تھا وہ کردیا، اب اس کے دائرے سے باہر نکل کر کچھ دوسرے حوالوں سے رجوع کرتے ہیں۔
نصیرالدین شاہ کی خود نوشت And Then one Day کے ایک باب کا عنوان ہے:
Cricket,my second,er …. third love
اس میں بیش تر وہی معلومات ہیں جو پٹودی والے مضمون کا حصہ ہیں لیکن چند نئی باتیں بھی ہمارے علم میں آتی ہیں۔ مثلاً ان کے والد بی بی سی ،وائس آف امریکا اور سیلون ریڈیو بڑے شوق سے سنتے تھے۔ فرزند ارجمند کو صرف ریڈیو پر کرکٹ کمنٹری سننے کی اجازت تھی۔
کتاب میں کرکٹ اور اداکاری کے فرق کو یوں واضح کرتے ہیں:
” کرکٹ ایک بے رحم داشتہ ہے جو اداکاری سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔”
ان کے خیال میں کرکٹ میں ایک غلطی آپ کو ہیرو سے زیرو بنا دیتی ہے جبکہ فلم میں غلطی کے سدھار کی گنجائش ہوتی ہے، ہر چیز کو ٹھیک کرنے کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔اس میں آپ سپر ہیرو پر تکیہ کرکے سکون سے سو سکتے ہیں۔
ریڈیو پاکستان پر ان کی جس گفتگو کا حوالہ ہم نے اوپر دیا ہے، اس لیے اہم ہے کہ وہ اس میں پاکستانی کھلاڑیوں کے کمالات کا فراخ دلانہ اعتراف کرتے ہیں:
”جب انڈیا اور پاکستان کا میچ ہوتا ہے تو انڈیا کو سپورٹ کرتا ہوں، But میرا admiration جو ہے پاکستان ٹیم کے لیے کبھی کم نہیں ہوا۔It’s amazing جو اس طرح سے کم بیک کرتے رہتے ہیں اور ایک کے بعد ایک فاسٹ باؤلر آتے رہتے ہیں، اسپنرز بھی آتے رہتے ہیں۔انسپریشنل کیپٹنز بھی ملتے رہتے ہیں۔میری نالج کافی گہری ہے انڈین اور پاکستانی کرکٹ کے بارے میں۔“( ماہ نامہ ‘آہنگ’ ،فروری 2013)
نصیر الدین شاہ نے ٹی وی شو ‘مڈ وکٹ ٹیلز ‘ میں متنوع موضوعات پر کامیاب پروگرام کیے جو مواد اور عمدہ پیشکش کی بنا پر یادگار اور حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شوبز میں ان کی کرکٹ سے ایک بامعنی وابستگی فلم ’اقبال‘ ہے جس میں انہوں نے کرکٹر موہت مشرا کا کردار کیا جو سسٹم کی ناانصافی کے باعث کرکٹ چھوڑ چھاڑ کر نشے کا عادی ہو گیا ہے۔ کرکٹ سے اس کی دوبارہ جڑت ایک گونگے بہرے نوجوان اقبال کو فاسٹ بولنگ کے اسرار رموز سکھا کر اونچے درجے کی کرکٹ میں نمائندگی کے قابل بنانے سے ہوتی ہے۔ یہ کامیابی سلیکشن کے ناانصافی پر مبنی طریقہ کار اور طبقاتی نظام کے خلاف فتح تو تھی ہی اس میں موہت کی ذاتی محرومی کا بدلا بھی شامل تھا۔ اقبال کی بہن خدیجہ اسے کوچنگ کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ وہ بھائی کی طرف دار ہے نہیں تو کرکٹ کا بیری باپ تو بیٹے کو اپنے ساتھ کھیتوں میں کام پر لگانا چاہتا ہے۔ جیت شوق کی ہوتی ہے۔ اقبال پہلے رانجی ٹرافی اور پھر قومی ٹیم کے لیے منتخب ہو جاتا ہے۔
فلم میں ایک جگہ کوچ اقبال کو یہ نکتہ تعلیم کرتا ہے:
“یہ دماغ کا کھیل ہے جو دل سے کھیلا جاتا ہے”
دیکھتے ہیں کل پاکستان اور انڈیا کے میچ میں اس فارمولے پر عمل کرکے کون سی ٹیم جیت اپنے نام کرتی ہے۔
اب کرکٹ کے شوق سے ہٹ کر نصیر الدین شاہ کی ایک ذاتی خوبی پر بات ہو جائے۔
سچ بولنا کسی زمانے میں آسان نہیں رہا لیکن موجودہ دور میں جہاں ہر طرف جھوٹ کی گڈی چڑھی ہوئی ہے سچائی کا رستہ اختیار کرنا اور بھی دشوار ہوا ہے ۔اس صورت حال کی طرف عشروں پہلے ممتاز ادیب انتظار حسین نے توجہ دلائی تھی :
“جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادا معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے.”
مشہور شخصیات کو بہر صورت اپنی شہرت عزیز ہوتی ہے، اس لیے ان کے ملکوں میں چاہے قیامتیں گزر جائیں وہ خاموش رہنے میں عافیت جانتی ہیں لیکن نصیر الدین شاہ کا معاملہ دیگر ہے۔ انہوں نے اپنے ملک میں مذہبی منافرت، انتہا پسندی اور مسلمانوں کے بارے میں مودی سرکار کی پالیسیوں پر تنقید کی۔ حالیہ انتخابات میں ہندوستان میں نفرت کی سیاست نے پسپائی اختیار کی ہے تو اس میں نصیر الدین شاہ جیسی ان آوازوں کا بھی کردار ہے جو انتہا پسندی کے خلاف اٹھتی رہی ہیں۔
ان کی صاف گوئی کی ایک مثال جس کا تعلق کرکٹ سے ہے اس پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں۔
2018 میں انہوں نے وراٹ کوہلی کو بہترین بلے باز تسلیم کرتے ہوئے اسے ایک ایسا بدتمیز کھلاڑی بھی قرار دیا تھا جس کی نخوت اور برے اطوار نے اس کے کارناموں کو گہنا دیا ہو۔ ان کے اس بیان کا پس منظر یہ تھا کہ کوہلی نے انڈین کھلاڑیوں کے بجائے دوسرے ملکوں کے کھلاڑیوں کو سراہنے والے شائقین پر تنقید کی تھی اور انہیں انڈیا چھوڑ جانے کو کہا تھا۔
اب یہ بات بھلا نصیرالدین شاہ کیسے برداشت کر لیتے جو دوسروں کو تو چھوڑیں روایتی حریف پاکستان کے کھلاڑیوں کی تعریف کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے۔