اسٹیڈیم کے باہر شائقین کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور سیکیورٹی اہلکار فرداً فرداً ٹکٹ چیک کرکے متعلقہ انکلوژر کی جانب رسائی دے رہے تھے۔ مقامی اور عالمی میڈیا شائقین کا جوش و خروش دکھانے میں پُرجوش تھا، ساٹس لیے جا رہے تھے، بیپرز دیے جا رہے تھے۔ تصاویر اور سیلفیوں کا بازار بھی گرم تھا، ایسے میں اللہ اللہ کرے انکلوژر کے گیٹ پر پہنچے تو وہاں بھی ٹکٹ چیک کیا گیا، الیکٹرانک ڈیوائس سے جامہ تلاشی لی گئی اور پھر یونیفارم میں ملبوس خاتون نے میری کلائی پر اپنائیت سے سبز رنگ کا بینڈ یوں لاک کیا، جیسے راکھی باندھ رہی ہو۔ اس پر پاک بھارت میچ کی تاریخ اور انکلوژر کا نام درج تھا۔
آئی سی سی مینز ٹی20 کرکٹ ورلڈ کپ کا چوتھا ایڈیشن 18 ستمبر سے 7 اکتوبر 2012 کے دوران سری لنکا میں کھیلا گیا تھا۔ 03 سری لنکن شہروں سوریا ویوا، پالے کیلی اور کولمبو میں تمام میچز شیڈیول تھے۔
ہمارے ابراہیم راجا جنون کی حد تک کرکٹ کے شیدائی ہیں، ان کی تجویز تھی کہ ٹی20 ورلڈ کپ اتنے قریب ہورہا ہے، لازماً دیکھنے جانا چاہیے، پھر کیا تھا کہ چند روز بعد کولمبو ہمارا میزبان تھا۔
اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کا تجربہ ٹی وی کے سامنے مبہوت ہو کر بیٹھنے سے خاصا منفرد ہے۔ اگرچہ پریماداسا اسٹیڈیم میں بہت سے دلچسپ اور سنسنی خیز میچ دیکھے لیکن آج ہمارا ہدف اور مدعا پاک بھارت میچ ہے۔ پریماداسا اسٹیڈیم میں 35 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے اور اس روز واقعی ہاؤس فُل تھا۔
پاکستان اور بھارت سُپر 8 مرحلے میں 30 ستمبر 2012 کو مدِمقابل تھے۔ ہر طرف سبز ہلالی پرچموں اور ترنگے کی بہار تھی۔ لاؤڈ اسپیکرز سے کان پھاڑ دینے والا بھارتی میوزک بھی ’مست‘ تھا، اس دوران کبھی کبھار کوئی اطلاع دی جاتی تو سماعتوں کو سکون ملتا تھا۔
اس روز پتا چلا کہ ٹی وی پر اور اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس کا اندازا یوں لگائیں کہ گھنٹوں پہلے شائقین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو میچ اسٹارٹ ہونے کے بعد بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ انتظامیہ کی قابلِ تحسین کاوش یہ تھی کہ پاکستانی اور بھارتی شائقین کو الگ الگ انکلوژرز میں ایڈجسٹ کیا گیا تھا۔ یہی نہیں حریف ممالک کے شائقین کو قابو رکھنے کے لیے پولیس بمعہ لیڈیز اہلکار بھی تعینات تھیں۔
میدان میں پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی اپنی اپنی پریکٹس اور حکمت عملی کے جال بُننے میں مصروف تھے۔ گھنٹہ بھر کے شورشرابے اور ہلےگلے کے بعد میدان میں میچ کے آثار واضح ہوئے، ٹیمیں پویلینز میں لوٹ چکی تھیں اور میدان کو صاف کردیا گیا تھا۔
سفید یونیفارم پہنے نوجوان مخالف سمتوں سے پاکستانی اور بھارتی پرچم پکڑے میدان کے درمیان پہنچے، آئی سی سی کا پرچم بھی نمایاں تھا اور ورلڈ کپ ٹرافی بھی سجائی گئی تھی۔
پاکستان نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو پاکستانی شائقین نے ’فلک شگاف‘ نعرے لگائے جو اسٹیڈیم کی وسعتوں میں ہی کہیں کھو گئے۔
انکلوژر میں فاسٹ فوڈ اور ’ریچھ‘ جیسی انگریزی والا مشروبِ مغرب بھی دستیاب تھا، جس سے بھارتی شائقین خوب فیضیاب ہو رہے تھے۔
پہلی بار اسٹار بھارتی بلے باز ورات کوہلی کو بؤلنگ کرتے دیکھا، انہوں نے پاکستانی کپتان محمد حفیظ کو 15 رنز پر کلین بولڈ کیا تو بھارتیوں نے اسٹیڈیم سر پہ اٹھا لیا۔
بھارتی تماشائی اپنی ٹیم کی کامیابی پر ایسے ایسے ہُوشربا اشارے اور نعرے بازی کرتے کہ ’توبہ تمہارے یہ اشارے‘۔ پاکستانی شائقین کو جوابی ’اشاروں‘ کے زیادہ مواقع ملے بھی نہیں، کیونکہ ہمارے 10 کے 10 کھلاڑی آؤٹ ہوئے تھے اور بھارت کے صرف 2 کھلاڑی، باقی اندازا آپ خود کرلیں۔
خوش آئند بات یہ تھی کہ سری لنکن شائقین کھُلم کھُلا پاکستان کی حمایت کر رہے تھے، جہاں گرین شرٹس پہنے کسی بھی پاکستانی کو دیکھتے تو مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے اور کبھی کبھار سیلفی شیلفی بھی چل جاتی تھی۔ شاہد آفریدی کے تو وہ شیدائی ہیں۔ ان کی محبتیں آج بھی تازہ ہیں۔
پاکستان ٹیم نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ تو خوب کیا لیکن 19.4 اوورز میں 128 بناکر آل آؤٹ ہوگئی۔ شعیب ملک 28 رنز کے ساتھ ٹاپ اسکورر رہے جبکہ انڈیا نے 2 وکٹوں کے نقصان پر 17 اوورز میں ہدف پورا کرلیا، ورات کوہلی 61 گیندوں پر 78 رنز اور 3 اوورز میں 21 رنز کے عوض ایک وکٹ لیکر مردِ میدان رہے۔
بھارت نے بآسانی 8 وکٹوں سے فتح سمیٹی تو بھارتی تماشائیوں نے دل کھول کر جشن منایا، گرین شرٹس پہنے شائقین کا منہ اترچکا تھا۔ سری لنکا کے دوست انہیں بقیہ میچز کے لیے ’بیسٹ آف لک‘ کا حوصلہ دے رہے تھے۔
بھارت جیت کے باوجود سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگیا تھا جبکہ پاکستان نے سیمی فائنل بھی کھیلا لیکن سری لنکا کے خلاف 16 رنز کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ فائنل میں ویسٹ انڈیز نے سری لنکا کو 74 رنز سے شکست دے کر ٹی20 ورلڈ کپ 2012 جیت لیا تھا۔
12 برس قبل 30 ستمبر 2012 کو بھی دل کی وہی حالت تھی جو 9 جون 2024 کو تھی، کھلاڑی بدل گئے لیکن نتائج جوں کے توں ہیں۔