ریگولر میڈیا بمقابلہ سوشل میڈیا

بدھ 12 جون 2024
author image

ناصر ادیب

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میں دانشوروں اور صحافیوں کی ایک محفل میں مدعو تھا۔ استاد محترم مجیب الرحمان شامی صدارت فرما رہے تھے۔ مقررین میں بڑے بڑے صحافتی نام شامل تھے۔ میں بھی ہال میں داخل ہوتے ہی طالب علمانہ لجاجت کے ساتھ اپنے لیے مخصوص کرسی پہ بیٹھ گیا۔ مذاکرہ کا موضوع تھا کہ سوشل میڈیا شترِ بے مہار اور ادارتی کنٹرول سے آزاد ہے لہذا اس کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق طے کر کے حکومت کو پیش کیا جائے اور قانون سازی کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔

مقررین کو سوشل میڈیا سے بہت سے شکوے تھے۔ پہلا یہ کہ اس میڈیم پہ کسی کا کنٹرول نہیں اور نہ ہی کوئی قانون لاگو ہوتا ہے۔ دوسرا گلہ فیک نیوز کے حوالے سےتھا کہ لوگ بغیر تحقیق کے مواد شائع یا نشر کر دیتے ہیں اور انہیں احتساب کا خوف نہیں ہوتا۔ تیسری اور سب سے بڑی ناراضگی یہ تھی کہ یوٹیوبرز اور وی لاگرز ڈالرز کمانے کی خاطر کونٹینٹ یا مواد میں سنسنی خیزی کا مصالحہ ذرا زیادہ ڈال دیتے ہیں۔ یعنی ویڈیو کا مواد تھمب نیل سے میل نہیں کھاتا یا شاید تھمب نیل ویڈیو کے مواد کے مطابق نہیں ہوتا۔ چوتھا شکوہ یہ تھا کہ سوشل میڈیا پہ پروپیگنڈا بہت ہوتا ہے، گو کہ بعد ازاں سوال کرنے پہ پروپیگنڈا کی مثالیں وہی دی گئیں جو ریگولر میڈیا پہ نام نہاد ادارتی کنٹرول کے باوجود نشر ہو چکی تھیں، مگر شاید بزرگواروں کی یادداشت سے محو ہو گئی تھیں۔

اور بھی بہت سے شکوے تھے۔ مختصر یہ کہ ہر مقرر کی کوشش تھی کہ سوشل میڈیا کو ’شیطانی چرخہ، فساد کی جڑ‘ اور ’قابل گرفت‘ قرار دے ڈالے اور قرار دے بھی دیا گیا۔

مجھے یاد آیا کہ سوشل میڈیا ایسی ہی ’مجرمانہ‘ اور ’غیر میڈیائی‘ حرکتوں کی وجہ سے آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی ڈانٹ کھا چکا ہے۔ اور بھی اس کو مختلف حلقوں کی طرف سے گاہے بہ گاہے ’فساد کی جڑ‘ یا ’فیک میڈیا‘ جیسےنادر القابات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ قاسمی صاحب کا بڑا جانا پہچانا شعر ہے کہ،

یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں

عرض یہ ہے کہ ہمارے ہاں پاکستان میں میڈیا انڈر سٹینڈنگ کے حوالے سے ایک سے ایک غیر منطقی سی مزاحمت موجود ہے۔ ہم کونٹینٹ یا مواد سے زیادہ دشمنی میڈیم سے پال لیتے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے خلاف اس معاشرے نے شدید ردعمل دیا۔ کافروں کی ایجاد اور نئی نسل کا دشمن قرار دیا پھر بعد ازاں ایسا قبول کیا کہ وطن عزیز کا کوئی گھر یا دوکان ٹی وی کے بغیر مکمل نہیں۔ کیبل ٹیلی ویژن کو بھی ایسی ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر مخالفت کرنے والوں نے اپنے چینل کھول لیے اور سب ٹھیک ہو گیا۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تو اسلام دشمن آلات قرار پائے، یہودی سازش تھے یا شاید اب بھی ہیں۔ پھر اس ملک کے اسکولز، کالجز اور مدرسوں میں کمپیوٹر سینٹر کھل گئے، باقاعدہ ڈگریز ہونے لگیں۔

اب سوشل میڈیا کو صاحبانِ اقتدار اور نوجوان نسل کے ماں باپ کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے۔ یقیناً اگلے چار پانچ سال میں ابلاغ کا کوئی اور زریعہ یا میڈیم سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کا متبادل ہو جائے گا اور تنقید کا نشانہ بن رہا ہو گا۔ کیونکہ دنیا ایسی کسی غیر منطقی تنقید کے نتیجے میں نئی ایجادات کرنے سے رک نہیں جاتی۔

خیر اب مائیک چلتا چلتا ہمارے پاس آچکا تھا۔ ہم نے چونکہ میڈیا پڑھ رکھا ہے، نہ صرف پڑھ رکھا ہے بلکہ کر بھی رکھا ہے۔ نہ صرف کر رکھا ہے بلکہ پچھلے ڈیڑھ عشرے سے پڑھا بھی رہے ہیں۔

ہم نے عرض کیا کہ دیکھیے سوشل میڈیا اپنی بنت کے اعتبار سے خالصاً جمہوری میڈیم ہے۔ ہر شخص اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اورکسی حد تک کسی دوسرے سے متاثر ہوئے بغیر۔ اور اگر وہ شہری کسی لیڈر، اداکار، صحافی یا دانشور سے متاثر بھی ہے تو یہ متاثر ہونا اس کا بنیادی حق ہے۔ وہ شہری جو ٹیکس دیتا ہے۔ ووٹ ڈال کر حکومت سازی میں حصہ لیتا ہے ہم اسی کے اظہاریے سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ آئینِ پاکستان آرٹیکل 19 کے تحت اس ملک کے تمام شہریوں کو آزادی اظہار رائے دیتا ہے۔ یہ آزادی صرف صحافیوں اور صحافتی اداروں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ صحافی اور میڈیا ہاؤسز تو خبر بیچتے ہیں۔ یہ تو ’سب سے پہلے‘ اور ’سب سے تیز‘ کی منڈی ہیں۔

اب آئیے کہ سوشل میڈیا پہ ’پروپیگنڈا‘ ہوتا ہے، تو جناب اس الزام کے چکر میں آپ کو پاکستان میں ہر طرح کے میڈیا کو تالا لگانا پڑے گا۔ کیا ریاست کی سرپرستی میں پی ٹی وی پروپیگنڈا نہیں کرتا تھا یا کرتا ہے؟ ایک خاص قسم کے بیانیے کی ترویج کے لیے پی ٹی وی نے ایسے ایسے جھوٹ گھڑے کہ ہم صحافت کے اساتذہ کلاس روم میں ڈسکس نہیں کر سکتے۔

مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا میں سے کون سا چینل ہے جو خبر یا تجزیہ کی آڑ میں پروپیگنڈا نہیں کرتا ہے۔ کوئی بھی ریگولر ناظر بآسانی سمجھ لیتا ہے کون سا چینل یا صحافی کس پارٹی یا سیاستدان کا حمایتی ہے، کون اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھا ہے اور کون غیر جانبداری کی قیمت پہ کس جج سے متاثر ہے۔ تو پروپیگنڈا کا الزام صرف سوشل میڈیا پہ کیوں؟

فیک نیوز سے مسئلہ ہے تو چینلز اور اخبارات نے ’ذرائع‘ اور ’بریکنگ نیوز‘ کے نام پہ خبری اقدار کی وہ دهجياں اڑائی ہیں کہ جوزف گوئبلز بھی موجود ہوتا تو پناہ مانگتا۔ڈالرز کمانے والا الزام درست ہے کہ یوٹیوبرز اور وی لاگرز کی کمائی ڈالرز میں ہوتی ہے۔ اب اس مسئلے کا ہمارے پاس کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اصل میں سوشل میڈیا کی وجہ سے ریاست، حکومت اور صحافتی اشرافیہ کو کونٹینٹ اور رائے سازی پہ اپنا کنٹرول کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے اس میڈیم کو باقاعدہ قابو کرنے کے لیے ضابطہ اخلاق بنانے کی تجاویز دی جا رہی ہیں۔ بلکہ پنجاب حکومت نے تو دو چار ایپلی کیشنز کے نام لکھ کر قانون بھی بنا ڈالا ہے۔

سو ہم نے تمام اساتذہ اور حاضرین کی خدمت میں بڑے ادب سے عرض کیا کہ سوشل میڈیا سے خوفزدہ نہ ہوا جائے بلکہ اسے تمام تر متعلقہ خصوصیات کے ساتھ قبول کر لیا جائے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ جب تک آپ تن آسانی اور سہولت سے کوئی ضابطہ اخلاق بنائیں گے، تب تک نئے فیچرز کے ساتھ کوئی نئی ایپلی کیشن لانچ ہو چکی ہو گی اور آپ پھر سے اسی طرح پریشان بیٹھے ہوں گے۔

ہاں کسی بھی میڈیم یا میڈیا کا توڑ کرنا ہے تو ’میڈیا لٹریسی‘ کو فروغ دیجیے۔ عوام الناس کو اس میڈیم کے استمعال اور نقصانات سے آگاہ کیجیے۔ ان سے ادارتی کنٹرول چھینے کی کوشش نہ کیجیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp