ماہرین فلکیات نے محض 240 سال پرانا ستارہ دریافت کیا ہے، جو اب تک پایا جانے والا اپنی نوعیت کا سب سے کم عمر ستارہ ہے۔ دریافت یہ جاننے میں مدد گار ہوگی کہ ستارے کیسے تشکیل پاتے ہیں۔
یہ ستارہ پہلی بار رواں ماہ بارہ مارچ کو ناسا کی نیل گیہرلز سوئفٹ آبزرویٹری کی مدد سے دیکھا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس ستارے کو اس آبزرویٹری کی نسبت سے ’سوئفٹ J1818.0-1607 ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
یورپی خلائی ایجنسی کے فالو اپ اسٹڈیز نے نو دریافت مردہ ستارے کی عمر کا اندازہ لگانے سمیت ستارے کی جسمانی خصوصیات کے بارے میں مزید تحقیق کی ہے۔
’سوئفٹ J1818.0-1607 ‘کے نام سے موسوم یہ ستارہ ایک بہت ہی کم عمر ’ میگنیٹار ‘ یا مقناطیسی ستارہ ہے، جو انتہائی مقناطیسی فیلڈز کے حامل ستاروں کی ایک نادر قسم ہے۔
اس کی عمر کے بارے میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ امریکی جنگ آزادی کے وقت کے آس پاس تشکیل پایا تھا، جب کہ یہ زمین سے تقریباً 16,000 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔
یہ اس حوالے ایک اہم دریافت ہے کہ ماہرین فلکیات کو اب تک صرف 31 میگنیٹار ملے ہیں۔ واضح رہے کہ ’میگنیٹار‘ عام ستاروں سے بھی زیادہ کثیف ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ایک کھانے کے چمچ کے اندر موجود مادے کا وزن 100 ملین ٹن سے زیادہ ہوتا ہے۔’میگنیٹار‘ درحقیقت ’مردہ ستارے‘ ہیں، جو اپنا جوہری ایندھن ختم کر چکے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ’سوئفٹ J1818.0-1607 ‘ جیسی دریافتوں سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ نیوٹران ستاروں اور ’میگنیٹار‘ یا مقناطیسی ستاروں کی تعداد میں اتنا تفاوت کیوں ہے۔