افغانستان میں امریکی کمانڈ سینٹکام کے سابق جنرل فرینک مکینزی کا کہا ہے کہ انہیں اسرائیل کے اس خیال سے انتہائی ہمدردی ہے کہ حماس کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ آپ اس تنظیم کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکتے۔
وائس آف امریکا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی کمانڈ سینٹکام کے سابق جنرل فرینک مکینزی کا کہنا تھا کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے، تاہم اس کے لیے بعد میں غزہ کے اندر جنگ کی نہیں بلکہ ایک وژن کی ضرورت ہوگی۔
سابق جنرل فرینک مکینزی کا مؤقف تھا کہ بعد از جنگ غزہ میں امن و امان کے قیام کے لیے اسرائیلی فوجیوں کے علاوہ دیگر فوجی بھی شامل ہوں، اس ضمن میں انہوں نے عرب فوجوں کی حمایت کی جو ان کے خیال میں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بہترین ثابت ہوں گی۔
سابق امریکی کمانڈر نے اس پر زور دیا کہ اس کے لیے توجہ سرمایہ کاری، انفراسٹرکچر کی تعمیر اور بحالی، اور انسانی امداد کے کاموں پر مرکوز رکھنے کی ضرورت ہوگی، جس کے لیے آپ کو اسے یقینی بنانا ہوگا کہ حماس اس پوری کاوش کا حصہ نہ ہو۔
ریٹائرڈ امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ انہیں اسرائیل کے اس خیال سے انتہائی ہمدردی ہے کہ حماس کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ آپ اس تنظیم کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔
’حماس ایک انقلابی تحریک ہے، اگر اس کے 99 جنگجو مارے جاتے ہیں تو 100واں کھڑے ہو کر انقلاب کا اعلان کر دے گا، اس معاملے میں حماس سے کسی اور طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔‘
سابق امریکی جنرل فرینک مکینزی کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے حماس کی بہت سے جنگی ترتیب الٹ دی ہیں تاہم ابھی کچھ جنگی حکمت عملی کے اثرات باقی ہیں۔
’میرے خیال میں وہ حماس کی سینئر قیادت کو پکڑنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں رہے ہیں، کیونکہ حماس کے رہنماؤں نے چھپنے کا انتخاب کیا ہے یہاں تک کہ اس وقت بھی جب ان کے جنگجو لڑ رہے ہیں۔
ریٹائرڈ جنرل فرینک مکینزی کے مطابق حماس نے زیرزمین یرغمالوں کے ساتھ خود کو محفوظ بنایا ہوا ہے اور بلاشبہ اس معاملے میں اصل یرغمال غزہ کی آبادی ہے، جسے ’لائن آف فائر‘سے باہر نکالنے میں حماس کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔