بھیڑ نہ بنیں بجٹ کو دیکھنے کا انداز بدلیں

جمعرات 13 جون 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بجٹ کو کیسے دیکھنا ہے؟ اس کا ایک طریقہ تو وہی یوٹیوبر والا ہے، مائیک ہاتھ میں پکڑو، منہ کیمرے میں دو اور ایمبولینس، فائر بریگیڈ اور پولیس موبائل کی ملتی جلتی والی ٹون میں آواز لگانا شروع کر دو۔ ’غریب پس گئے، ٹیکس کا بوجھ اونٹ کی کمر پر آخری کمر توڑ تنکا ہو گا۔اگلے سال کوئی غریب بچے گا ہی نہیں، ٹیکس کے پیسوں سے حکمران عیاشی کریں گے، سارا پیسہ ڈیفنس پر چلا جاتا ہے‘۔

جو اتنا کہنے کی بہادری نہیں دکھا سکتا، وہ یہ کہہ دیتا ہے کہ قرضوں کا سود دے کر پیچھے کچھ بھی نہیں بچا۔ یہ بورنگ آوازیں سن کر ہم پک گئے ہیں۔ پھر بھی ایسی باتوں کو مس تو کرتے ہیں۔ جیسے ہر بڑی عید پر خبروں کی ٹیگ لائن ہوتی ہے کہ منڈیوں میں گاہک ہی نہیں۔ عید والے دن پھر قصائی نہیں مل رہا ہوتا۔

بجٹ کو دیکھنا کیسے ہے؟ سب سے پہلے تو بجٹ کا سائز دیکھیں۔ پچھلے سال اسحاق ڈار نے 14 ہزار 4 سو 60 ارب کا بجٹ پیش کیا تھا۔ اس بار محمد اورنگزیب کا بجٹ 18,887 ارب روپے کا ہے، یعنی پچھلے بجٹ سے 30 فیصد زیادہ۔ تب دفاعی بجٹ 1800 ارب تھا، اس بار دفاعی بجٹ 2122 ارب روپے ہے۔ دفاعی بجٹ میں 17 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ پچھلے سال بھی یہ جی ڈی پی کا ایک اشاریہ 7 فیصد تھا، اور اس سال بھی اتنا ہی ہے۔ بجٹ کا سائز بڑھ گیا ہے تو دفاعی بجٹ بھی بڑھ گیا۔

ترقیاتی بجٹ اس سال 3,792 ارب روپے ہے۔ پچھلے سال یہ 2,709 روپے تھا۔ ترقیاتی بجٹ میں 40 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ صوبائی ترقیاتی بجٹ کے لیے وفاقی گرانٹ یا شیئر پچھلی بار 1,559 ارب روپے تھا جو اس بار 2,095 ارب ہو گئی ہے۔ یہ اضافہ 34 فیصد سے زائد ہے۔

اس حکومت نے سبسڈی کے لیے 1,363 ارب روپے رکھے ہیں۔ یہ پچھلے سال سے 27 فیصد زیادہ ہیں۔ پچھلے سال یہ 1,071 ارب روپے تھے۔ سبسڈی کا سب سے بڑا حصہ 1,190 ارب روپے پاور سیکٹر کو جائے گا۔ ادھر اب آپ سوچیں کہ اتنی سبسڈی آپ پاور سیکٹر کو دینا چاہیں گے یا یہ ترقیاتی کاموں پر صرف ہونی چاہئے؟۔

پچھلے سال مہنگائی کی شرح یا افراط زر 21 فیصد پر رہنے کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ یہ اس سے زیادہ پر گئی۔ اس سال یہ افراط زر 12 فیصد پر ہے۔ اس کمی کی وجہ سے ہی شرح سود میں بھی اسٹیٹ بنک نے 1.5 فیصد کمی کی ہے۔ اب جب بجٹ کا سائز زیادہ رکھا گیا ہے تو ٹیکس کلیکشن بھی زیادہ ہی کرنی ہو گی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سائز بھی 27 فیصد بڑھا کر 593 ارب کر دیا گیا ہے۔

ہم کو اگر امیر ملک بننا ہے تو اپنے کمائے پیسوں سے ہی امیر ہو سکیں گے۔ مانگے تانگے کے پیسوں سے کوئی امیر ہوتا دیکھا ہو تو بتائیں۔ پاکستان میں انویسٹمنٹ لانی ہے تو انفراسٹرچکر امپروو کرنا ہو گا۔ میگا پراجیکٹس کی طرف جانا ہوگا۔ ان پراجیکٹس میں کون سے ضروری ہیں، یہ ترجیحات طے کرنا اہم ہے۔ سستی بجلی ڈیم بنا کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ تیل پر چلنے والے پاور پلانٹ یہی حشر کرتے ہیں جو ہوا پڑا ہے۔

جب میگا پراجیکٹ کے لیے قرض لیں گے تو اس کی واپسی یقینی بنانے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے۔ آئی ایم ایف قرض دیتا ہے بیلنس آف پیمنٹ کے لیے ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام ہو تو انویسٹر کا اعتبار بڑھتا ہے۔ آئی ایم ایف ایسے قرض لینے پر بھی روک لگاتا ہے جو معیشت ادا کرنے کی سکت نہ رکھتی ہو۔

اس بجٹ میں تنخواہوں اور پنشنز میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کم سے کم تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ٹیکس کی شرح بھی بڑھائی گئی ہے۔ نان فائلر کے لیے تو زندگی عذاب کرنے کے آئیڈیاز پیش کیے گئے ہیں۔ وہ زمین اور گاڑی خریدے گا تو ٹیکس 3 گنا زیادہ ادا کرے گا۔ نان فائلر کے غیر ملکی سفر پر بھی پابندی کی تجویز ہے۔ پراپرٹی کا کام کرنے والوں کو تو اچھا خاصا دھکا لگنے جا رہا ہے۔

لوگوں کو اب دماغ لڑانا ہو گا کہ وہ پیسے کمانے کا ایسا کون سا طریقہ دیں جس پر ٹیکس لگانا سرکار بھول گئی ہے۔ اب یہ نہ ہو کہ آپ کا دماغ سیدھا اسمگلنگ کی طرف چلا جائے۔ مودی کو اس بار انڈین ووٹر نے کٹ ٹو سائز کیا ہے۔ جیت کر وزیر اعظم تو بھائی بن گیا ہے، لیکن طاقت اور اثر میں واضح کمی آئی ہے۔ مودی کے الیکشن میں ہوئے حشر پر ایک لائن پڑھی کہ وہ روٹی سستی کرنے میں لگا رہا یہ سوچا ہی نہیں کہ غریب سستی روٹی بھی کیسے خریدے گا۔

روٹی مہنگی ہو، جیب میں پیسے ہوں تو خریدی جا سکتی ہے۔ تنخواہ بڑھانا اچھا اقدام ہے افراط زر کم ہوا ہے، بنکوں کی شرح سود کم ہوئی ہے، اس کا بھی غریب کو فائدہ ہو گا۔ اصل فائدہ تو ڈار صاحب کے نہ ہونے کی برکت کا بھی ہوا ہے۔ آخری بات پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں 2 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ بھیڑ بکریوں کی تعداد میں 40 لاکھ سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ یہ دونوں ملائیں تو 45 لاکھ ہوں گے۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑیں ڈھینچو والی فیلنگ لینے دیں۔ آپ تو سیانے بیانے ہیں بجٹ کو دیکھنے کا انداز بدل لیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp