دیر میں چاقو اور چھری سازی کی مقامی صنعت نوابی دور سے چلی آ رہی ہے۔ ریاست دیر میں صدیوں پہلے ہنرمندوں نے اس صنعت کی بنیاد رکھی تھی۔ اب چاقو ساز فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہنرمندوں کی تیسری نسل نے یہ کام سنبھالا ہوا ہے۔
نوابی دور کے خاتمے کے بعد بھی یہ خاندان اس کام سے جڑے رہے اور پوری دنیا میں دیر کے چاقو کو متعارف کروایا۔ یہ چاقو ملک بھر میں ’دیروجی چاقو‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
چاقو بنانے والے ان کاریگروں کے پاس اپنے بزرگوں کا صدیوں پرانا تجربہ ہے تب ہی یہ ہاتھ سے ایسے شاندار چاقو بنالیتے ہیں کہ مشینیں بھی پیچھے رہ جائیں۔ ان کے بزرگ بھی چاقو، چھریاں اور خنجر ہاتھ سے بنایا کرتے تھے جو اس زمانے میں مضبوطی، خوبصورتی اور پائیداری کے باعث بیحد پسند کیے جاتے تھے۔ آج بھی ان کی شہرت کا سبب وہی خصوصیات ہیں جس کے باعث ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ عید سے قبل دیر سے چھریاں اور چاقو منگواتے ہیں۔
چاقو کی تیاری
دیر بالا میں سینکڑوں ہنرمند اس کام سے وابستہ ہیں جہاں چاقو اور چھریوں کی چھوٹی بڑی 500 سے زائد دکانیں ہیں۔ چاقو کی تیاری میں گاڑیوں کی کمانی اور ریل کی پٹڑی کا لوہا استعمال کیا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ دیروجی چاقو کی دھار کبھی خراب نہیں ہوتی اور کند پڑ جانے کی صورت میں محض پتھر پر 2، 4 بار رگڑ دینے سے دھار دوبارہ تیز ہو جاتی ہے۔
مزید پڑھیں
دیر کے مشہور چاقو اور چھریاں مقامی علاقوں کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں اور بیرون ملک بھی بھیجے جاتے ہیں۔ کراچی، پشاور، مردان، لاہور، فیصل اباد، گجرانوالہ، راولپنڈی، سرگودھا، میانوالی، بنوں اور اسلام آباد سمیت یہ آزاد کشمیر بھی بھیجے جاتے ہیں۔ دیر آنے والے سیاح سب سے پہلے یہاں کی مختلف سوغات کے ساتھ گھریلو استعمال اور دوستوں کو تحفے کے طور پر دینے کے لیے چاقو چھریاں خریدتے ہیں۔
چاقو سازی کو صنعت کے درجے، آزادانہ ترسیل کی اجازت کا مطالبہ
دیر میں چاقو اور چھریوں کی تیاری کا سلسلہ تو سال بھر جاری رہتا ہے لیکن عید قرباں سے قبل نہ صرف مقامی سطح پر اس کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے بلکہ ملک بھر سے بھی کئی ماہ قبل آرڈرز آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
یوں ذی الحج کا مہینہ یہاں کے کاریگروں اور دکانداروں کے لیے خوشحالی کا پیغام لاتا ہے۔ تاہم مقامی کاریگر حکومت سے شکوہ کرتے ہیں کہ اگر وزیر آباد کی طرح یہاں بھی چاقو سازی کو صنعت کا درجہ دیا جائے اور آزادانہ طور پر اس کی اندرون اور بیرون ملک ترسیل کی اجازت دی جائے تو اس سے ملک کو سالانہ کروڑوں روپے کا زرمبادلہ مل سکتا ہے۔