ایچ آئی وی نامی وائرس انسانی جسم میں داخل ہو کر جینیاتی مادے کو اپنی افزائش کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں انسان کی قوت مدافعت دن بدن بتدریج کم ہو جاتی ہے۔
مزید پڑھیں
یہ مہلک بیماری ایکوائرڈ امیوننو ڈیفیشنسی سنڈروم (ایڈز) کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے بلوچستان میں ہر گزرتے سال کے ساتھ ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو اب خطرناک صورت اختیار کر گیا ہے۔
کوئٹہ میں سب سے زیادہ ایڈز کیسز رپورٹ ہوئے
ایڈز سے متعلق غیر سرکاری تنظیم ہارڈ بلوچستان کے حالیہ سروے کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع سے ایڈز کے کیسز سامنے آنے کا سلسلہ جاری ہےتاہم صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی ادارے کے متعدد طلبا ایڈز وائرس سے متاثر
غیر سرکاری تنظیم کے سروے کے دوران ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے سمیت شہر کے مختلف علاقوں سے ایڈز کے سیمپل لیے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کے متعدد طلبا میں ایڈز کا وائرس پایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں ایڈز کے مشتبہ کیسز کی تعداد 7 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے جن میں صرف بلوچستان میں ایڈز کے رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 2 ہزار 5 سو سے زیادہ ہے۔
مثبت کیسز میں سے 87 فیصد کیسز کا تعلق کوئٹہ سے بتایا گیا ہے، تاہم ایڈز کا یہ موذی مرض 5 سال کے دوران 500 افراد کو اپنا شکار بنا چکا ہے۔
رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 2545 ہے
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایڈز کنٹرول پروگرام بلوچستان کے پروگرام منیجر ڈاکٹر خالد قمبرانی نے بتایا کہ صوبے میں رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 2545 ہے، مجموعی طور پر متاثرہ مریضوں میں سب سے زیادہ مرد ہیں جن کی عمر 18 سے 35 سال کے درمیان ہے۔
خواتین، بچے اور 3 درجن خواجہ سرا بھی ایڈز سے متاثر
اس کے علاوہ خواتین بچے اور 3 درجن کے قریب خواجہ سرا بھی ایڈز سے متاثر ہیں۔ ایڈز کے شکار مریضوں میں 1550 افراد اس وقت ایڈز کنٹرول پروگرام کے ذریعے علاج کی سہولت حاصل کر رہے ہیں۔
6 ماہ میں 40 نئے کیس رپورٹ ہوئے
ڈاکٹر خالد قمبرانی نے بتایا کہ گزشتہ برس 25 سے 30 کے درمیان نئے کیسز سامنے آئے تھے جبکہ رواں برس ایڈز کے 40 نئے کیسز صرف 6 ماہ کے دوران سامنے آچکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایڈز پر قابو پانے کے لیے ایڈز کنٹرول پروگرام صوبے کے 5 اضلاع میں سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ اس وقت ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت 1550 مریضوں کا علاج جاری ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایڈز کا علاج کرنے والے ڈاکٹر الیاس مینگل نے بتایا کہ بلوچستان میں 2014 کے بعد ایڈز کے کیسز میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
ایڈز کا وائرس کئی سالوں بعد پھر ایکٹیو ہو سکتا ہے
انہوں نے بتایا کہ ضروری نہیں کہ سامنے آنے والے کیسز حالیہ دنوں میں ہی ایڈز کی زد میں آئے ہوں، دراصل ایڈز کی بیماری ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونے کے بعد کئی سال بعد بھی ایکٹیو ہو سکتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ لوگوں میں ایڈز سے متعلق آگاہی بڑھنے کے بعد وہ اس بیماری کا ٹیسٹ کرواتے ہیں۔
ڈاکٹر الیاس مینگل نے بتایا کہ ایڈز کئی طریقوں سے انسانی جسم میں داخل ہو سکتا ہے جیسا کہ استعمال شدہ طبی آلات کا دوبارہ استعمال کرنا، حجامت کے دوران کٹ لگنے اور غیر محفوظ جنسی تعلق قائم کرنے سے ایڈز کی بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص تک منتقل ہو سکتی ہے۔
غیر محفوظ جنسی تعلق ایڈز پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ
نشے کے عادی افراد اکثر اوقات ایک دوسری کی استعمال شدہ سرنج دوبارہ استعمال کرتے ہیں تاہم غیر محفوظ جنسی تعلق اس مرض کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
کوئٹہ میں ایڈز پھیلنے کی بڑی وجہ غیر محفوظ جنسی تعلق ہی ہے، ماہرین
ماہرین کے مطابق کوئٹہ میں ایڈز کے کیسز میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ غیر محفوظ جنسی تعلق ہے۔ شہر کے وسطی علاقے جناح روڈ، ہاکی روڈ، پرنس روڈ، منان چوک سمیت کئی علاقوں میں خواتین، کم عمر لڑکے اور خواجہ سرا کھلے عام جسم فروشی کے کاروبار کو پروان چڑھا رہے ہیں ایسے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اس لعنت کی جانب گامزن ہو رہی ہے۔ ایسے میں ایڈز کا پھیلنا بے حد آسان ہو گیا ہے۔