پاکستانی اینکر و صحافی منصور علی خان اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق بولر محمد آصف کے درمیان لفظی جنگ چھِڑ گئی۔
مزید پڑھیں
ایک حالیہ یوٹیوب ویڈیو میں صحافی نے سابق کرکٹر اعجاز احمد کے پشتون کرکٹرز کے بارے میں تعصبانہ ریمارکس پر تنقید کی تھی۔ان کے اس بیان پر عوام کے علاوہ مشہور شخصیات کی جانب سے تنقید کی گئی جس کے بعد انہیں اپنے بیان پر معافی مانگنی پڑی۔
ان تنقید کرنے والوں میں اینکر منصور علی خان بھی شامل تھے جنہوں نے اعجاز احمد کو یاد دلایا کہ ماضی میں جن تین پاکستانی کرکٹرز کو میچ فکسنگ پر سزا کا سامنا کرنا پڑا ان میں ایک بھی پشتون نہیں تھا۔
وہ تین کرکٹرز بولر محمد آصف، سلمان بٹ اور محمد عامر تھے، جن میں کم عمری کی وجہ سے محمد عامر کو معافی دے کر بعد میں ٹیم کا حصہ بنالیا گیا تھا۔
بعدازاں ایک اور ویڈیو بنا کر منصور علی خان نے کہا کہ ‘مجھے ایک فکسر کی کال آئی جن کا کہنا تھا کہ آپ مجھے اس تنازع میں کیوں لارہے ہیں، آپ کو اس بارے میں بات کرنے کی کیا ضرورت ہے.۔
اینکر کے مطابق انہوں نے جواب دیا کہ ‘کیا آپ میچ فکسر نہیں ہو آپ نے میچ فکسنگ کی اور یہ دھبا ساری زندگی آپ کے ساتھ جُڑا رہے گا، آپ ایک غریب پس منظر سے آئے اور خوب پیسا بنایا، میں نے ویڈیو میں کہیں بھی آپ کا نام نہیں لیا’۔
منصور علی خان نے دعویٰ کیا کہ اس ‘فکسر’ نے انہیں دھمکی بھی دی، جس کے بارے میں انہوں نے اپنے اہلِ خانہ کو بھی مطلع کردیا ہے۔
دوسری جانب ایک جوابی ویڈیو پیغام میں محمد آصف کا کہنا تھا کہ ‘میں نے اعجاز احمد کے ریمارکس سنے، میں بھی ان کی مذمت کرتا ہوں، وہ غلط تھے، لیکن ان سب میں مجھے کیوں گھسیٹا’۔
سابق بولر نے کہا کہ ‘آپ کون ہوتے ہو ہر دوسرے روز اٹھ کر کسی کی کردار کشی کرنے والے، کیا آپ کے پاس ایسا کرنے کا لائسنس ہے؟’۔
آصف نے منصور علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ نے وی لاگ ان سے شروع کر کے میرے پیسوں پر آکر ختم کیا، میرا اس سب سے کیا لینا دینا’۔
میچ فکسنگ کے حوالے سے باتے کرتے ہوئے سابق کرکٹر نے کہا کہ ‘ہاں میں نے ماضی میں میچ فکسنگ کی غلطی کی اور اس کی سزا بھی بھگتی ہے’۔
انہوں نے کہا کہ مذہب بھی آپ کو اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ ہردوسرے دن کسی کی کردار کشی کریں۔سابق بولر نے کہا کہ ‘میں نے آپ کو اس لیے فون کیا تھا کہ جس کے بارے میں آپ نے بات کی تھی اس پر تو آپ نے کم بات کی، آدھے سے زیادہ ویڈیو مجھ پر بنائی۔محمد آصف نے کہا کہ ‘اس بات کو 14 سال ہوگئے، میرے اور آپ کے بچے بڑے ہورہے ہیں، وہ میرے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے، یہ ٹھیک نہیں ہے’۔