نیٹو نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے بیلاروس میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار نصب کرنے کے اعلان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق نیٹو نے کہا ہے کہ وہ ساری صورتحال پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے روسی صدر پیوٹن کے اعلان کے بعد ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نیٹو کی ترجمان اوانا لونگیسکو نے کہا کہ نیٹو اتحاد اپنے بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کرے گا۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے بیلاروس پر زور دیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ معاہدے سے دستبردار ہوجائے اور خبردار کیا کہ اگر وہ پیچھے نہ ہٹا تو اسے مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یوکرین کے صدر زیلنسکی کے سینئر مشیر میخائیلو پوڈولیاک نے روس کے اس اقدام کو ڈرانے کی حکمتِ عملی قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا تھا کہ وہ بیلاروس میں ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار نصب کرنے جا رہے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ ان کا یہ اقدام جوہری ہتھیاروں سے متعلق معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں ہے بلکہ یورپ میں ہتھیار نصب کرکے امریکا بھی اس طرح کا اقدام اٹھا چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ روس ان ہتھیاروں کا کنٹرول کبھی بھی بیلاروس کو منتقل نہیں کرے گا۔
دوسری جانب امریکا کا کہنا ہے کہ اسے یہ یقین نہیں ہے کہ روس اس اقدام کے بعد جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے دیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نیٹو اتحاد کے اجتماعی دفاع کے لیے پُرعزم ہیں۔
واضح رہے کہ بیلاروس کی ایک لمبی سرحد یوکرین کے ساتھ ملتی ہے جبکہ نیٹو ممالک کے ارکان پولینڈ، لتھوانیا اور لٹویا کے ساتھ۔ بھی اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق 1990ء کی دہائی کے وسط کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا جب روس اپنے جوہری ہتھیار ملک سے باہر رکھے گا۔
واضح رہے کہ بیلاروسی حکومت روس کی مضبوط اتحادی اور یوکرین پر حملے کی حامی ہے۔
روسی صدر پیوٹن کا کہنا ہے کہ ان کا یہ اقدام کوئی غیر معمولی بات نہیں کیونکہ امریکا ایسا کئی دہائیوں سے کر رہا ہے۔
روسی صدر نے مزید کہا کہ امریکا نے ایک طویل عرصے سے اپنے اتحادی ممالک کی سرزمین پر اپنے ٹیکٹیکل جوہری ہتھار نصب کر رکھے ہیں۔
روس آئندہ ہفتے سے ہتھیاروں کو چلانے کے لیے عملے کو تربیت دینے کے عمل کا بھی آغاز کر رہا ہے جبکہ یکم جولائی تک ان جوہری ہتھیاروں کو نصب کرنے کا عمل مکمل کرلے گا۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ روس کی جانب سے بیلاروس میں ہتھیار نصب کا اعلان چینی صدر شی چن پنگ کے روسی دورے کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔
واضح رہے کہ چینی صدر کے دورے کے دوران ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تمام جوہری طاقتوں کو اپنے جوہری ہتھیاروں کو اپنے قومی علاقوں سے باہر تعینات نہیں کرنا چاہیے۔
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک اعلیٰ سلامتی مشیر نے کہا ہے کہ روس کے اس اقدام سے بیلاروس کی عوام میں روس مخالف جذبات بڑھیں گے۔