آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے!

پیر 17 جون 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’ابتدا ہے ربِ جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے، دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے۔‘

مذکورہ جملہ یقیناً طارق عزیز کے عہد میں موجود ہر پاکستانی کی سماعتوں میں محفوظ ہوگا۔ طارق عزیز کا اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوگا کہ وہ سرکاری ٹی وی ’پی ٹی وی‘ کا پہلا مرد چہرہ تھے جس نے 1964 میں اولین نشریات میں کہا تھا کہ خواتین و حضرات آپ پاکستان ٹیلی وژن دیکھ رہے ہیں۔

طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو متحدہ ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد انہوں نے خاندان کے ہمراہ ساہیوال میں نئی زندگی شروع کی۔ ابتدائی اور سیکنڈری تعلیم ساہیوال سے حاصل کی، پھر تلاش روزگار میں لاہور میں پڑاؤ ڈالا۔

یہ وہی لاہور تھا جس کی فٹ پاتھوں پہ سونے والا طارق عزیز اسی شہر کے باسیوں کی بے لوث محبت کے طفیل ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوا، یہ بات تو طے ہے کہ وہ پہلے پاکستانی آرٹسٹ تھے جو رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، لیکن ان کا ایک اور اعزاز یہ بھی تھا کہ انہوں نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 46 ہزار ووٹوں کے بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔

1997 کے عام انتخابات میں عمران خان کو 4 ہزار ووٹ جبکہ طارق عزیز کو 50 ہزار سے زائد ووٹ ملے تھے۔ طارق عزیز کو لاہور سے مسلم لیگ ن کے روحِ رواں نواز شریف نے ٹکٹ دیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ حملہ کیس میں سزا کے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انہیں اس حملے کا قطعی کوئی علم نہ تھا۔

طارق عزیز بطور شاعر، کالم نگار، اداکار، میزبان اور سیاست دان ہماری یادداشتوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی دائمی وجہ شہرت پی ٹی وی پر ان کا منفرد شو ’نیلام گھر‘ تھا جو پہلے پہل 1975 میں آن ائیر ہوا، پھر ’طارق عزیز شو‘ اور بعد ازاں ’بزمِ طارق عزیز‘ کے نام سے لگ بھگ 41 برس تک پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوتا رہا۔

ضیائی آمریت میں جب پیپلز پارٹی اور ان کے ہمدرد زیرِ عتاب تھے اور ملازمتوں سے بھی چُن چُن کر نکالے جا رہے تھے، طارق عزیز پی ٹی وی پر اسی سج دھج سے کام کرتے رہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ ’اینکر اور آمر کا تعلق جالندھر سے تھا۔‘

طارق عزیز اس اتفاق سے اتفاق نہیں کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ جنرل ضیا نے انہیں دس سے زائد خط لکھے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن پی ٹی وی کی جانب سے انہیں صدرِ پاکستان کا انٹرویو کرنا تھا جو مجبوری تھی اور ان کی جانب سے ہی دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا تھا۔

طارق عزیز کالم نگار اور شاعر بھی تھے ان کے کالموں کا مجموعہ ’داستان‘ اور پنجابی شاعری ’ہمزاد دا دکھ‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ شاعری سے گہری رغبت رکھتے تھے، کسی بھی قابل ذکر شاعر کا کوئی ایسا شعر نہ تھا جو انہیں ازبر نہیں تھا۔ طارق عزیز آخری ایام میں آپ بیتی بھی لکھ رہے تھے، جس کا نام انہوں نے خود اناؤنس بھی کیا تھا ’فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک۔‘

طارق عزیز کے پسندیدہ لکھاری ابوالکلام آزاد اور من پسند شاعر مجید امجد تھے، جن سے ان کی کئی ملاقاتیں رہیں، وہ منیر نیازی کی بیباکی کو بھی پسند کرتے تھے۔ اعتراف کرتے تھے کہ مجید امجد اور منیر نیازی کی قربت نے ان میں ادبی ذوق پیدا کیا۔ ان کا ایک شعر زبانِ زد خاص و عام ہے:

ہم وہ سیاہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دکاں کفن کی سب مرنا چھوڑ دیں

طارق عزیز نے 25 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ محمد علی اور زیبا کے ساتھ پہلی فلم ’انسانیت‘ میں کام کیا جو سُپر ہٹ ثابت ہوئی۔ ’سالگرہ‘ بھی ان کی بہترین فلموں میں سے ہے۔ انہوں نے کمپیئرنگ کی دنیا میں اپنا منفرد مقام بنایا جو آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہے۔ انہوں نے میزبانی کا منہ مانگا معاوضہ حاصل کیا، وہ اس دور میں 10 لاکھ روپے فی گھنٹا بھی وصول کرتے رہے، جب ان کی برادری کے لوگ ہزاروں میں عافیت سمجھتے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ بے اولاد تھے لیکن حقیقت ہے کہ خالق کائنات نے انہیں ایک بیٹے سے نوازا تھا جو شیر خواری میں ہی انتقال کر گیا تھا۔ طارق عزیز اللہ کی رضا پر ہر حال میں خوش رہے۔ ان کی وصیت کے مطابق مرنے کے بعد ان کی تمام جائیداد کو پاکستان کے نام کردیا تھا۔

طارق عزیز کو مطالعے کا شوق ازحد عزیز تھا، ان کا گھر بھی لائیبریری کا منظر پیش کرتا تھا، وہ کہا کرتے تھے کہ جس گھر میں کتابیں نہ ہوں وہ بدنصیب ہے۔ ان کا دوسرا شوق جرمن شیفرڈ تھا، جس کا انہوں نے ایک جوڑا پال رکھا تھا اور انتہائی مصروفیت سے بھی وقت نکال کر ان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ افسوس، صد افسوس کہ زندگی بھر کی خدمات کے صلے میں 1992 میں انہیں محض تمغہ حسنِ کارکردگی کا حقدار جانا گیا۔

طارق عزیز کے والد میاں عبدالعزیز نے ان کی پیدائش سے قبل 1936 میں ہی اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھنا شروع کردیا تھا۔ اسکول میں طارق عزیز کے ساتھی انہیں چھیڑتے تھے کہ تمہارا باپ ’میاں عبدالعزیز پاکستانی‘ انوکھا پاکستانی ہے؟ ایک روز روتے ہوئے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ’دوستوں کو بتاؤ میرا باپ 1936 کا پاکستانی ہے اور تم لوگ 1947 کے پاکستانی ہو۔‘

ہر دل عزیز طارق عزیز 84 برس کی عمر میں آج ہی کے دن 17 جون 2020 کو دل کی حرکتیں بے قرار ہونے سے لاہور میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے، وہیں آسودہ خاک ہیں۔

طارق عزیز اپنے پروگرام کے اختتام پر کہا کرتے تھے کہ:
’وطن عزیز کو دعا ،،، پاکستان زندہ باد۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp