الیکٹرانک میڈیا اور فیلِ بے زنجیر سوشل میڈیا کے پھیلاؤ سے پہلے کسی معاملے میں جانکاری کے لیے اپنے سے زیادہ باعلم شخص سے کچھ جاننے اور استفسار کی روایت تھی، لیکن اب تو لگتا ہے سب کا یہی کلمہ ہے ’ہمچو ما دیگرے نیست‘۔ مذہب سے لے کر کرکٹ تک ایک سے ایک ماہر اتنی وافر تعداد میں موجود ہیں کہ شمار کرنا محال ہے۔
پاکستان میں ہر فرد کرکٹ کا ماہر ہے
یہ ماہرین ہمارے نصیبے میں آج سے نہیں، اسی لیے تو ممتاز ادیب انتظار حسین نے اپنی کتاب ’نظریے سے آگے‘ میں لکھا تھا:
’بات یہ ہے کہ آج کل جس شخص سے بات کرو وہ ایک مرتبہ آپ سے اسلام پر بحث ضرور کرے گا۔ پھر اس کے بعد کرکٹ پر۔ پاکستان میں ہر فرد اسلام کا مفسر ہے اور کرکٹ کا ماہر ہے۔‘
موجودہ زمانے کے ماہرین ہم پر اس لیے بہت بھاری پڑے ہیں کہ انہیں بھاشن دینے کے لیے برق رفتار ذرائع میسر آئے۔
سردست ہم نے ماہرین کرکٹ پر بات کرنی ہے، جن میں سے اکثر کی بولیاں تنفر، غصے، تعصب اور لاعلمی سے معمور ہوتی ہیں، کیونکہ ان عناصر سے تیار ہونے والی چاٹ کے بڑی تعداد میں خریدار پیدا کر لیے گئے ہیں۔ اس کی ایک مثال گزشتہ دنوں نجی ٹی وی چینل پر 2 سابق ٹیسٹ کرکٹروں کی وہ یاوہ گوئی ہے جس پر انہیں معافی مانگنی پڑی، لیکن ان کی متنازع گفتگو چلی بہت اور میڈیا میں کامیابی کی معراج یہی ہے۔
انقلاب کی رٹ
کرکٹر تو کرکٹر کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی طلاقت لسانی بھی دیکھیے، جنہوں نے ٹورنامنٹ کے دوران کرکٹ ٹیم میں بڑی سرجری کا شوشا چھوڑا۔ ڈاکٹر مبارک علی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جن لوگوں کے خلاف انقلاب آنا چاہیے، وہی انقلاب انقلاب کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ اس رعایت سے کہا جا سکتا ہے جنہیں سرجری کی خود ضرورت ہے وہ دوسروں کو مشق ستم بنانے پر تلے بیٹھے ہیں۔
کرکٹ کا گہرا علم اور اس کے مسائل کا ادراک رکھنے والے ہمارے درمیان موجود ہیں لیکن وہ کسی مخصوص ایجنڈے کا حصہ نہیں بن سکتے، اس لیے انہیں خیالات کے اظہار کا موقع دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔
قومی ٹیم کی ہار پر تنقید ہونی چاہیے لیکن بقول میر:
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
کرکٹ میں زوال کی کیا وجوہات
شکست کے بعد جذباتی ردعمل بجا لیکن کبھی ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے کہ آخر کرکٹ میں زوال کی کیا وجوہات ہیں؟ زیادہ گہرائی میں جانے کا تقاضا تو کیا کریں۔ سامنے کی چیزیں بھی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ مثلاً کیا ہم نے غور کیا ہے ہمارے شہروں میں کتنے کرکٹ گراؤنڈز تھے جو اب نہیں رہے۔ اس کا تعلق براہ راست کرکٹ کی ترقی سے ہے۔ حکومتوں اور کرکٹ بورڈ کو نمائشی اقدامات سے فرصت ملے تو اس مسئلے پر توجہ فرمائیں۔ پہلے ذرا کراچی کی بات کر لیتے ہیں۔
نوجوان کرکٹروں کی نرسری
معروف سندھی ادیب امر جلیل کرکٹ کے رسیا ہیں۔ وہ کراچی کے اجڑنے کا نوحہ برابر لکھ رہے ہیں جس میں گاہے کرکٹ کا تذکرہ بھی در آتا ہے۔ ان کے 2 کالموں سے یہ اقتباسات ملاحظہ کریں :

’جہانگیر پارک نوجوان کرکٹروں کی نرسری تھا۔ جہانگیر پارک کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلنے والے کئی کرکٹر ٹیسٹ کرکٹ کھیلے، کچھ کھلاڑیوں کے نام آپ بھی سن لیجیے، حنیف محمد، محمد مناف، والس میتھائس، خالد وزیر، دلپت، اینتاؤ ڈسوزا، وسیم باری، انتخاب عالم اور ڈنکن شارپ۔ یار لوگوں نے کرکٹ گراؤنڈ کو اکھاڑ کر نام نہاد پارک بنا دیا۔ آپ خود جا کر دیکھیں۔ پارک اب گرد و نواح کا کچرا ڈالنے کے کام آتا ہے۔ چرسی، ہیروئنی، موالی، جرائم پیشہ اب جہانگیر پارک میں پنپتے ہیں۔‘
کراچی پولیس کی قبضہ گیری
’ہندو جم خانہ کے ساتھ کرکٹ گراؤنڈ ہوتا تھا ۔۔۔ آج کل ہندو جم خانہ گراؤنڈ پر پولیس کے بے رونق اور بھدے سیکڑوں فلیٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ کراچی پولیس کی قبضہ گیری کی پہلی واردات ہے۔‘
منٹو پارک کرکٹ کا گڑھ
امر جلیل کی ان بیانات کے بعد لاہور کے منٹو پارک کی بات کر لیتے ہیں جو تقسیم کے پہلے سے کرکٹ کا گڑھ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی شہر کی کرکٹ میں اسے مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ کتنے ہی کلبوں کے یہاں نیٹ لگتے تھے۔ کرکٹ میچ ہوتے تھے۔ کئی کھلاڑی اسی کے رستے سے قومی ٹیم میں پہنچے، لیکن گریٹر اقبال پارک کے منصوبے نے منٹو پارک میں کرکٹ کی عظیم روایت ختم کر دی۔ ادھر یونیورسٹی گراؤنڈ بھی برباد ہو گئی۔ کرکٹ کے متوالوں یا عام شہریوں نے اس بربادی پر کبھی مؤثر احتجاج کیا؟
ماجد خان
حکومتوں سے شہر کے پھیلاؤ اور بڑھتی آبادی کے پیشِ نظر کھیل کے نئے میدان آباد کرنے کا تقاضا کیا؟
یہ مثال کے طور پر ایک نکتہ ہے۔ پاکستان کرکٹ کو اور بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔ میری دانست میں پاکستان میں ماجد خان سے بڑھ کر شاید ہی کسی کو ان کا ادراک ہو۔
وہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ، بین الاقوامی کرکٹ اور کاؤنٹی کرکٹ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ کرکٹ سے متعلق اونچے انتظامی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ان کے والد ڈاکٹر جہانگیر خان ہندوستان کی پہلی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ تھے۔ بیٹا بازید خان ٹیسٹ کرکٹر اور نامور کمنٹیٹر ہے۔ اس لیے انہیں قدیم اور جدید کرکٹ کی درمیانی کڑی کہا جا سکتا ہے۔ مختلف ممالک میں رائج کرکٹ سسٹم سے اچھی طرح واقف ہیں۔ دنیا بھر میں ان کی توقیر ہے۔
میری خوش قسمتی ہے کہ گزشتہ 10 برسوں میں ان سے ملاقاتوں میں کرکٹ کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ وہ مکالمے کے دوران اپنی ذات کو بیچ میں نہیں لاتے۔ نہ ہی انہیں اپنے کارنامے گنوانے کی لت ہے۔ میڈیا سے دور رہنے میں عافیت جانتے ہیں۔ مطالعے سے گہرا شغف ہے۔
ماجد خان سے ربط ضبط کے ابتدائی زمانے میں کرکٹ کے نظام میں اصلاح کی بابت ان کے خیالات میں نے ایک قومی روزنامے میں شائع کیے تھے۔ اس کے بعد پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے، لیکن ماجد خان کی باتیں اب بھی حسب حال ہیں، اس لیے ان کا اعادہ کرنے میں حرج نہیں۔
ماجد خان قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کی بنیادی وجہ ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام میں خرابی کو گردانتے ہیں، جو ان کے خیال میں بار بار کی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی جبکہ ہر نظام کی کامیابی تسلسل سے مشروط ہوتی ہے۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ انگلینڈ میں انٹر کاؤنٹی چیمپیئن شپ کی تاریخ 135 سال پرانی ہے۔ اس کے بنیادی ڈھانچے میں جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ آسٹریلیا میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے انٹر اسٹیٹ کرکٹ چل رہی ہے اور انڈیا میں رانجی ٹرافی کو 90 سال ہو گئے ہیں۔
باہر کی مثالوں کے بعد وہ اپنے ہاں کی تاریخ بیان کرتے ہیں: ’1953 میں صوبائی بنیادوں پر قائداعظم ٹرافی شروع ہوئی جس میں ناک آؤٹ سسٹم کی وجہ سے ٹیموں کو زیادہ میچ کھیلنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ سنہ 60 میں یہ ڈویژنل بنیادوں پر ہونے لگی۔ 1960 کی دہائی میں قائداعظم ٹرافی کے ساتھ ایوب ٹرافی شروع کی گئی۔ یہ بعد میں پیٹرنز ٹرافی کہلائی، اس میں بھی ڈویژنل ٹیمیں ناک آؤٹ کی بنیاد پرشریک ہوتیں، جس میں وہ ٹیمیں جو قائداعظم ٹرافی کھیلتی تھیں، وہ اور ساتھ میں کچھ مزید ٹیمیں شریک ہوتیں۔ 70 کی دہائی میں عبدالحفیظ کاردار ڈیپارٹمنٹل کرکٹ لے آئے ۔ اس کے بعد بھی تجربات ہوتے رہے۔ احسان مانی کے دور میں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرکے 6 ایسوسی ایشنز کی ٹیمیں بنا دی گئیں۔‘
عبد الحفیظ کاردار کا کردار
ماجد خان کے نزدیک ڈومیسٹک کرکٹ کی بربادی کی ذمہ داری بہت حد تک عبد الحفیظ کاردار پر عائد ہوتی ہے جو بھٹو دور میں کرکٹ بورڈ کے سربراہ تھے۔ یہ بات سن کر حیرت ہوئی جسے انہوں نے یہ بتا کر دور کیا:

’عبدالحفیظ کاردار نے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر پاکستان کرکٹ کو خراب کیا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کا بیڑاغرق کیا۔ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ متعارف کرائی جس نے ڈومیسٹک کرکٹ کو تباہ کر دیا۔ چیئرمین بورڈ ہو کر انہوں نے خود ہی مقامی کرکٹ کوعزت نہیں دی۔ پاکستان کی سیریز ہوتی تو کھلاڑی کاؤنٹی کرکٹ چھوڑ کر کھیلنے آتے اور واپس چلے جاتے۔ کاردار نے کبھی ان پر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے پر زور نہیں دیا۔ وہ اگران سے کہتے کہ تم کاؤنٹی کرکٹ ضرور کھیلو لیکن ساتھ میں ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی حصہ لو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو قومی ٹیم میں نہیں کھیلو گے۔ اس پرکھلاڑی ضرور ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتے، کیونکہ کاؤنٹی میں وہ جو کچھ بھی کریں، اصل اہمیت تو پاکستان کی طرف سے کھیلنے کی تھی، اسی سے وہ دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔‘
ماجد خان کا یہ دیرینہ مؤقف ہے لیکن میں نے چند دن پہلے نجی ٹی وی چینل پر انضمام الحق کو بھی یہی کہتے سنا کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کو جب تک ویلیو نہیں دیں گے آپ آگے نہیں چل سکیں گے۔
انضمام الحق نے پی ایس ایل کو سلیکشن کا معیار بنا لینے پر بھی تنقید کی اور عثمان خان، محمد عامر اور عماد وسیم کی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے بغیر ٹیم میں شمولیت کو غلط ٹھہرایا۔
انضمام کی بات میں وزن اس لیے ہے کہ پی ایس ایل کے ہیرو ورلڈ کپ میں زیرو ہوتے سب نے دیکھ لیے۔ کھیل میں نکھار اور ذہنی مضبوطی کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنا ضروری ہے، لیکن ہمارے لاڈلے کھلاڑی لیگ کرکٹ کھیلنے 7 سمندر پار چلے جائیں گے لیکن اپنے ملک میں کھیلنے سے ان کی شان میں کسر آتی ہے۔
کلب کرکٹ
ڈومیسٹک کرکٹ کے بارے میں آپ نے ماجد خان کا نقطہ نظر اوپر پڑھ لیا۔ کلب کرکٹ کے بارے میں ان کی رائے ہے کہ اس کی بنیاد میں کجی ہے، اس لیے وہ زیادہ ثمر آور نہیں رہی۔انہوں نے کلب کرکٹ کی تاریخ کے بارے میں بتایا:
’ہمارے ہاں انگریز دورمیں کلب کرکٹ کوغلط بنیاد پر استوار کیا گیا، جس میں انگریز کا اپنا مفاد تھا، لیکن اس کے چلے جانے کے بعد اس کا متعارف کرایا گیا نظام چلتا رہا۔ انگریز نے لاہور جم خانہ کلب بنایا۔ کیا یہ لاہورکی نمائندگی کرتا ہے؟ یہ اس نے سول اور فوجی افسر شاہی کے لیے بنایا۔ اس طرح اس نے پنجاب کلب بنایا، کاروباری کمیونٹی کے لیے، یہ سارے پنجاب کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اس طرز پر کراچی میں جم خانہ کلب اور سندھ کلب بنے۔ یہ کلب اشرافیہ کے لیے قائم ہوئے۔
انگریز کی سازش
اسپورٹس میں کلب کا تصور محلے یا بستی سے وابستہ ہوتا ہے۔ انگریزوں کے ہاں کرکٹ، فٹبال اور ہاکی کے کلب محلے یا بستی پر بنیاد رکھتے ہیں، اور ان کے نام سے علاقائی نسبت ظاہر ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اس نے ایسا اس لیے نہیں ہونا دیا کہ کہیں عوام میں cohesion نہ ہو جائے، کیونکہ اسپورٹس لوگوں کوجوڑتی بھی ہے، محلے کی بنیاد پر کلب ہوتے تو ہرطرح کا بندہ اس کا ممبر بن سکتا تھا، جم خانہ کا ممبر توگنے چنے بندے ہی بن سکتے ہیں۔
اس لیے انگریز دور سے ہمارے ہاں کلب کا جو نظام چل رہا ہے وہ بغیر منصوبہ بندی کے ہے۔ یہ علاقوں کی بنیاد پر نہیں ہے۔ ایک بندے نے کلب کھڑا کر دیا۔ نہ پیسہ ہے نہ گراؤنڈ ہے، بس اس نے کلب پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ اب ساری عمر وہ کلب کا کرتا دھرتا بنا رہے گا، اس کا نہ وژن ہے اور نہ کرکٹ کی سوجھ بوجھ اسے ہے۔‘
آسٹریلیا کی ڈومیسٹک کرکٹ
آسٹریلوی ٹیم نے کرکٹ میں بے نظیر کامیابیاں حاصل کی ہیں جس کی جڑیں ان کے ڈومیسٹک کرکٹ کے بہترین سسٹم میں پیوست ہیں۔
اس سسٹم کے بارے میں ماجد خان نے بتایا:
’آسٹریلیا کی ٹیم ڈومیسٹک کرکٹ کی مضبوطی کے باعث تگڑی ہے، اس لیے وہ تھوڑا کمزور پڑیں تو جلد سنبھل جاتے ہیں۔ ان کی اسٹیٹ ٹیم مین سٹی سے نکلتی ہے۔ نیو ساؤتھ ویلز کی ٹیم سڈنی سے بنتی ہے۔ وکٹوریا کی ٹیم میلبرن سے۔ کوئنزلینڈ کی برسبین سے۔ ویسٹرن آسٹریلیا کی پرتھ سے۔ ساؤتھ آسٹریلیا کی ٹیم ایڈیلیڈ سے۔
ان کی کلب ٹیم محلے پر بنیاد رکھتی ہے۔ ہر محلے میں کلب کے 4 درجے ہیں۔ اے، بی، سی اور ڈی ہیں۔ 16 برس وہاں اسکول کی لازمی تعلیم ہے۔ اس کے بعد آپ محلے کی کلب ٹیم میں جائیں گے۔ ڈی سے آغاز کریں گے، پھر پرفارمنس کی بنیاد پر سی، بی، اور پھر اے ٹیم سے آپ اسٹیٹ کی ٹیم کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔
ہم نے فرسٹ کلاس کرکٹ کو گریڈ کرکٹ کہہ دیا، وہاں کلب کرکٹ کو گریڈ کرکٹ کہا جاتا ہے۔ 6 اسٹیٹس ہیں، ہر ٹیم 5 میچ اپنی اسٹیٹ میں، 5 باہر جا کر کھیلتی ہے۔
ایڈمنسٹریشن جس قدر مضبوط ہو گی اتنی ہی کرکٹ اچھی ہوگی۔ آسٹریلیا میں ہر کھلاڑی کا متبادل ہوتا ہے، اس لیے وہاں پلیئر پاور بھی نہیں۔ ہمارے ہاں متبادل کھلاڑی نہیں ہوتے اس لیے پلیئر پاور بھی بہت ہے۔‘
ڈومیسٹک کرکٹ بہتر بنانے کا جامع منصوبہ
ماجد خان صرف گفتار کے غازی نہیں ان کے پاس ڈومیسٹک کرکٹ بہتر بنانے کا جامع منصوبہ بھی ہے۔ اسے ماضی میں وہ کرکٹ بورڈ کو پیش کر چکے ہیں۔ نجم سیٹھی نے اس کے نفاذ کی یقین دہانی بھی کروائی تھی، لیکن اس پر پیش رفت نہ ہو سکی۔
ان کے ڈومیسٹک کرکٹ کے مجوزہ ڈھانچے میں 11 فرسٹ کلاس ڈویژنل اور 11 نان فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیمیں ہوں گی۔ یہ 10، 10 میچ کھیلیں گی۔ انٹر ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ الگ سے ہو گا۔ اس سے کھلاڑیوں کا بڑا پول سامنے آئے گا۔ زیادہ میچ کھیلنے سے کارکردگی میں بہتری کے ساتھ ساتھ سفارشی کھلاڑیوں کا راستہ روکنا بہت حد تک ممکن ہو سکے گا۔
اسی طرح وہ یونیورسٹی کرکٹ کے احیا کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
’وائٹ آن گرین‘
رچرڈ ہیلر اور پیٹر اوبورن کی کتاب ’وائٹ آن گرین‘ میں ماجد خان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتری کی تجاویز پر ’اے ماسٹر پلان فرام ماجد‘ کے عنوان سے باب شامل ہے۔ اس کا اختتام جس بات پر ہوا ہے اسی پر ہم اپنے اس مضمون کو ختم کرتے ہیں۔
ماجد خان سے پوچھا گیا کہ کیا ہم پاکستان میں کبھی حکومتی اثر سے آزاد مستحکم کرکٹ انتظامیہ دیکھ سکیں گے؟
’میری زندگی میں تو نہیں‘، انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔