یوراگوئے کے صحافیEduardo Galenoنے بہت خوبصورت بات کہی’جمہوریت کے خلاف زیادہ تر جنگیں جمہوریت کے لبادے میں ہی لڑی جاتی ہیں‘۔آپ Demagogueryکو ہی دیکھ لیجیے،اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود جمہوریت۔ بغاوت ناکام ہوئی تویونانی جرنیل Cleon نے چلا کر کہا، قیدیوں سمیت ہر اس شخص کو قتل کردو جو ہمارے راستے میں رکاوٹ بنا۔
اس بدنام زمانہ ’ڈیماگاگ‘سے متعلق ارسطو نے لکھا ہے ’وہ پہلا شخص تھا جو عوامی مقامات پر چیخ چیخ کر بات کیا کرتا تھا، بدزبانی اس کا معمول تھا۔ باقی سب موزوں لباس پہن کر مناسب انداز میں بات کیا کرتے تھے مگر وہ چغہ زیب تن کرکے مخاطب ہوتا۔
“انگریزی زبان کا لفظ ”Demagogue“دراصل یونانی زبان سے ہی مستعار لیا گیا ہے جس کا لفظی مطلب ہے ’عوام کا قائد‘۔مگر یہ اصطلاح اس شخص کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کردار کے بجائے گفتار کا غازی ہو۔ باتیں تو بہت اچھی کرتا ہو مگر دوراندیشی، حکمت و تدبر اور فہم و فراست سے یکسر عاری ہو۔’ڈیماگاگ‘ کی پہچان یہ ہے کہ وہ خود کو بہادر اور بے خوف رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے،لوگوں کو کہتا ہے کہ غلامی کی زنجیریں توڑ دو لیکن جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو اپنے کارکنوں کو قربانی کا بکرا بنادیتا ہے اور خود آگے نہیں آتا۔وہ خوف کے ہتھیار سے اپنی کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے۔لوگ اس کے شر سے چپ رہتے ہیں۔یہ تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرے گا،اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔جو اس کے خلاف بات کرے گا،لوگ اس کی بوٹیاں نوچ لیں گے۔
’ڈیماگاگ‘کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے جہاں جھوٹ سے کام چلایا جاسکتا ہے وہاں سچ بولنے کی غلطی نہ کی جائے۔ جھوٹے اور غیرحقیقی وعدے کرکے لوگوں کو بیوقوف بنایا جائے۔’ڈیماگاگ‘ وہاں بھی پل بنانے کا وعدہ کرلیتا ہے جہاں کوئی دریا ہی نہیں ہوتا۔ اپنے مخالفین کو ملک دشمن اور غدار ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنے پیروکاروں کو ان کے خلاف تشدد پر اُکسایا جاتا ہے۔ تنقید کرتے ہوئے نہایت گھٹیا زبان استعمال کی جاتی ہے۔ میڈیا کو جانبدار قرار دیتے ہوئے دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔’ڈیماگاگ‘ کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے مرکزی حیثیت حاصل ہو۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے سیاسی منظر نامے پر دوشخصیات کا غلبہ تھا، شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو۔ دونوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ بہت اعلیٰ پائے کے خطیب اورعوام کے نبض شناس تھے۔ دونوں کی شعلہ بیانی کا یہ عالم تھا کہ مجمع پر سحر طاری ہوجاتا۔ مگرہر دو شخصیات میں مقررانہ صلاحیت کے سوا کوئی مشابہت و مماثلت نہ تھی۔ شیخ مجیب کی تمام تر صلاحیتیں فن تقریر تک محدود تھیں مگر بھٹو ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔
مشرقی پاکستان بحران کے ایک اہم کردار میجر جنرل(ر)راؤ فرمان علی جو سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد ہیں، انہوں نے بعد ازاں ایک انٹرویو (پاکستان جرنیل اور سیاست۔ازعلی حسن،صفحہ نمبر163)میں دعویٰ کیا کہ شیخ مجیب کو ’ہینڈل‘ کیا جا سکتا تھا۔ وہ ایک بہت اچھا مقرر تھا جس کو انگریزی میں ”Demagogue“کہتے ہیں۔ ایسا شخص جس میں عقل کی کمی ہو لیکن تقریر بہت اعلیٰ کرتا ہو۔عوام کو اِدھر سے اُدھر لے جائے۔ بہت ہی اعلیٰ تقریر کرتا تھا لیکن وہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا مالک نہیں تھا۔
شیخ مجیب جنہیں ’ڈیماگاگ‘ قرار دیا جاتا ہے، ان کی تقریروں نے بنگالیوں میں نئی روح پھونک دی۔ ان کے ایک جملے نے ایسا بیانیہ متشکل کیا جس کا ریاست کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا اور وہ جملہ تھا ’مجھے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے‘۔
جنرل گل حسن جو تب چیف آف جنرل اسٹاف تھے اور ذوالفقار علی بھٹونے اقتدار سنبھالنے کے بعد انہیں افواج پاکستان کا کمانڈر انچیف تعینات کیا، انہوں نے اپنی سوانح حیات ”Memoirs of Lt General Gul Hassan Khan“میں نہ صرف ان دونوں رہنماؤں یعنی مجیب اور بھٹو کو ’جھوٹا‘ قرار دیا ہے بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں Demagogueکی اصطلاح استعمال کی ہے۔ وہ دانشورانِ عصرجو نہ صرف سابق وزیراعظم عمران خان کے حلیفِ سخن ساز کی حیثیت سے ان کے سحر میں مبتلا ہیں بلکہ جن کا رزق بھی ان کی مقبولیت سے وابستہ ہے، وہ کبھی بھٹو سے ان کا موازنہ کرتے ہیں تو کبھی انہیں قائداعظم سے تشبیہ دیتے ہیں۔
یوں تو عمران خا ن اس قدر منفرد شخصیت کے حامل ہیں کہ ان کا ماضی کے کسی بھی سیاستدان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر اس دور کے رہنماؤں سے تقابل کرنا ہو تو میری دانست میں انہیں موجودہ دور کا شیخ مجیب کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ وہ ’ڈیماگاگ‘ کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ عمران خان ایسے شعلہ بیاں مقرر ہیں کہ چاہیں تو پانی میں آگ لگا دیں، چینی کہاوت ہے کہ آگ کو کاغذ سے نہیں ڈھانپا جا سکتا مگر وہ زور خطابت کی بنیاد پر یہ کارنامہ بھی سرانجام دے سکتے ہیں۔ شیخ مجیب کی طرح بیانیہ بنانے اور اپنے مقلدین میں اسے حرفِ آخر کے طور پر پیش کرنے میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں۔
مثال کے طور پر انہوں نے 25مارچ2023ء کو مینار پاکستان لاہور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے معیشت کو بحال کرنے کے لیے 10نکاتی پروگرام پیش کردیا۔ یہی مینارپاکستان گواہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ کتنے ہی ایسے پرکشش خواب دکھایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر خودکشی کرلوں گا مگر قرض نہیں لوں گا۔ اگر میں وزیراعظم بن گیا، اور میرے دور میں کوئی شخص لاپتہ ہوا تو یا میں نہیں یا پھر وہ (یعنی اغوا کرنے والے)نہیں۔ ایک کروڑ ملازمتیں،50لاکھ گھر۔یورپی ممالک سے لوگ یہاں نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے۔ نجانے کتنی طویل فہرست ہے ان وعدوں کی مگر اب انہوں نے جادوگر کی طرح اپنے ہیٹ سے ایک اور کبوتر نکال لیا ہے۔
ان کی پیروی کرنے والے دانشور نہ صرف ماضی کی قد آور شخصیات میں ان کی مشابہت کی سچی جھوٹی روایات ڈھونڈتے ہیں بلکہ حالات و واقعات کے تانے بانے ماضی سے جوڑنے کے لیے دروغ گوئی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ حال ان کے عقیدت مندوں اور پیروکاروں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور میں ہونے والے جلسے کو کامیاب ثابت کرنے کے لے لیے پرانی اور جعلی ویڈیوز شیئر کی جاتی رہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ محض سیاستدان ہی ’ڈیماگاگ‘ نہیں ہوتے،تحریر وتقریر کے فن میں طاق ان کے مقلدین بھی ’ڈیماگاگ‘ ہوسکتے ہیں۔