کراچی: انسانی اسمگلنگ اور دستاویزات میں ردوبدل کا مقدمہ، صارم برنی عدالت میں پیش

ہفتہ 22 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کراچی کی سٹی کورٹ اور جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی میں دستاویزات میں رد وبدل اور انسانی اسمگلنگ کے مقدمے میں صارم برنی کو عدالت میں پیش کردیا گیا ہے، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے) نے 3 گواہان کو بھی عدالت میں پیش کر دیا ہے۔

ہفتہ کے روز عدالتی چیمبر میں گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، ایف آئی اے کی جانب سے مبینہ طور پر فروخت کی جانے والی بچی کی والدہ اور گود لینے والے جوڑے کو بطور گواہ پیش کیا گیا۔ عدالت نے گواہان کے بیانات ریکارڈ کر کے انہیں مقدمے کا حصہ بنا دیا۔

مبینہ ملزم صارم برنی کے وکیل عامر منصوب قریشی نے کہا کہ ایف آئی اے نے 3 گواہان کے بیانات ریکارڈ کروائے ہیں، ابھی گواہان کے بیانات پر جرح مناسب نہیں، ٹرائل کے موقع پر گواہان پر جرح کریں گے۔

ہفتہ کے روز افشین نے عدالت میں بیان دیا کہ بچی حیا کی پیدائش کے بعد وہ اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں تھے، ڈاکٹر مدیحہ نے بچی افشین سے لی اور روزمرہ کے اخراجات دیتی رہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر مدیحہ نے بچی کسی اور کو دی جہاں سے بچی صارم برنی ٹرسٹ پہنچ گئی۔

افشین نے بتایا کہ ہم نے صارم برنی ٹرسٹ سے بچی کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن نجی ٹی وی پروگرام میں ہمیں بتایا گیا کہ بچی ٹرسٹ کے پاس ہی رہے گی کسی کے حوالے نہیں کریں گے۔ بعد میں پتہ چلا کہ انہوں نے بچی کو کسی امریکی فیملی کو دے دیا ہے۔

اس موقع پر بشریٰ نے عدالت کو بتایا کہ وہ بے اولاد تھیں اور بچہ گود لینا چاہتی تھیں، سوشل میڈیا پر بچے کو گود لینے سے متعلق اشتہار دیکھا تو ہم نے بچی گود لے لی، کچھ دن بعد ہم سے 6 لاکھ روپے کا تقاضہ کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ہم غریب لوگ ہیں رقم ادا نہیں کرسکتے تھے اس پر ہمارے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کروانے کی دھمکی دی گئی جس پر ہم نے بچی کو صارم برنی ٹرسٹ میں چھوڑ دیا تھا، بعد میں پتہ چلا کہ بچہ کسی امریکی فیملی کو دے دی گئی ہے۔

صارم برنی کی عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو

صارم برنی ٹرسٹ کے سی ای او نے کہا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا مجھے پاکستان کی عدالتوں پر یقین ہے کہ وہ انصاف دیں گی۔

انہوں نے کہا کہ میں بال کالے نہیں کرتا تو کالے کام کیسے کرسکتا ہوں، میرے خلاف یوٹیوبر کے ذریعے میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے ، یوٹیوبر اپنی دکان چلانے کے لیے کچھ بھی بناکر اپلوڈ کردیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے یوٹیوبر اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بخشتے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسی نظام کی وجہ سے مجھے ہتھکڑی لگی ہے ،پاکستان گود لینے کا تصور نہیں ہے بلکہ گارڈیئن شپ کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے نظام کو دیکھنا ہے روڈ پر نکل کردیکھیں کس طرح بچوں کو روڈ پر چھوڑا اور پھینک دیا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یورپ کے نظام میں اگر استاد بچے کے چہرے پر نشان دیکھ لے تو والدین پر مقدمہ بنتا ہے ۔ میں اپنے بیان پر قائم ہوں اور اپنا کام جاری رکھوں گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp