درخت، پانی اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟

اتوار 23 جون 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

موسمیاتی تبدیلیوں نے دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، ایسے لیڈر یا لوگ جو اس خطرے کی وارننگ کو یکسر نظر انداز کرتے رہے آج قدرت کے نظام میں تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ موسم میں ایسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں کہ انتہائی تیز بارشیں اور تباہ کن سیلاب، انتہائی سردی، اور انتہائی گرمی۔

اس مرتبہ لاہورسمیت پنجاب کے بیشتر علاقوں میں شدید سردی کے لمبے دورانیے نے عوام کو جنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سورج نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ مئی کے آغاز تک موسم بہترین رہا۔ مگر جونہی سورج نے اپنے تیور دکھائے تو لوگوں کی چیخیں نکل گئیں، مسلسل ڈیڑھ مہینہ تباہ کن گرمی نے عوام کو نڈھال کردیا۔ ہر جگہ لوگ سایہ ڈھونڈنے لگے اور پانی کا استعمال بھی بڑھ گیا۔ سایہ دار درختوں کی کمی اور صاف پانی کی عدم دستیابی شدت سے محسوس ہونے لگی۔

درخت آکسیجن دیتے ہیں اور پانی زندگی ہے، مگر ہم اپنے ماحول کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ پاکستان میں شہروں کے اردگرد درخت اور سبزہ ختم کرکے رہائشی کالونیاں بنائی جارہی ہیں، ان علاقوں کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کیا جارہا ہے، اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ کئی دہائیوں سے حکومت محض اعلانات کرتی آرہی ہے کہ وہ شہروں کے اردگرد پانی کے ذخائر اور مصنوعی جنگل بنائے گی تاکہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی اور آکسیجن مل سکے مگر ان اعلانات پر عملدرآمد آج تک نہیں ہوسکا۔ لاہور میں راوی کے قریب بڑی جھیل کا خواب بھی خواب ہی رہا۔ انگریز دور میں قائم ہونے والے چھانگا مانگا کے مصنوعی جنگل کے بعد پنجاب کی کوئی حکومت ایسی مثال قائم نہیں کرسکی۔

کسی بھی ملک کے کل رقبے کے 25 فیصد حصے میں جنگل یا درخت ہونے چاہیئیں مگر افسوس ہے کہ پاکستان میں جنگلات کا رقبہ محض 5 اشاریہ 2 فیصد ہے جو انتہائی کم ہے۔ اسی طرح پانی کے ذخائر بنانے کے بجائے ہم بھارت پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ اپنے علاقوں میں ہمارے حصے کا پانی روک کر پانی ذخیرہ کررہا ہے اور بارشوں کے موسم میں بغیر بتائے سیلابی ریلے چھوڑ دیتا ہے۔ یہ سارا پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے کیونکہ ہم نے اس اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست کیا ہی نہیں۔

آج سے 24 سال پہلے لاہور میں واسا کے سربراہ سے جب بات ہوئی کہ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح مسلسل کم ہورہی ہے ایسے میں آپ کا محکمہ کیا منصوبہ بندی کررہا ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ یہ سب مفروضے ہیں، لاہور میں پانی ختم نہیں ہوسکتا۔ انجینیئرنگ یونیورسٹی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ واسا کے سربراہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ زیرزمین پانی تیزی سے کم ہورہا ہے۔

35 سال قبل جب لاہور کے بیشتر حصوں میں زیر زمین صاف پانی 100 فٹ کی گہرائی سے حاصل کیا جاتا تھا اب 600 سے 700 فٹ کی گہرائی تک بورنگ کرکے صاف پانی نکالا جارہا ہے۔ اس ’قابل‘ انجینیئر اور پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں پانی فراہم کرنے والی ایجنسی کے سربراہ کی معلومات کا یہ حال تھا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کی موسمی تبدیلیوں کے بارے میں کتنی شناسائی ہے اور کیسی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں، اسی دور میں بعض علاقوں میں ایسے بھی گھر یا ڈیرے تھے جہاں ٹونٹی تک نہیں لگائی جاتی تھی اور پانی مسلسل بہتا رہتا تھا اور صرف سپلائی بند ہونے پر پانی بند ہوتا تھا، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔

دوسری طرف لاہور، راولپنڈی جیسے بڑے شہروں میں درختوں کو کاٹ کر سڑکیں کھلی کی جا رہی ہیں۔ ٹریفک کے بہاؤ کو بہتر کرنے کی خاطر جگہ جگہ انڈرپاس اور پل تعمیر کیے جارہے ہیں۔ لاہور، پشاور، ملتان اور راولپنڈی اسلام آباد میں میٹرو بس سروس شروع کی گئی جس سے شہریوں کو آمدورفت میں کافی سہولت ملی، مگر شہروں کا پھیلاؤ اس قدر ہوچکا ہے کہ ایک بس سروس انتہائی ناکافی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سڑکوں پر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی بھرمار ہوچکی ہے جس سے لاہور، کراچی، راولپنڈی سمیت تمام بڑے شہروں میں فضائی آلودگی نے سب ریکارڈ توڑ دیے ہیں، لاہور اب اکثر اوقات دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست رہتا ہے۔

درختوں کا خاتمہ، پینے کے صاف پانی کی قلت، آبادی میں اضافہ، سڑکوں پر گاڑیوں کا ہجوم اور انتہائی ناقص حکمت عملی نے ان تمام بڑے شہروں کو رہائش کے قابل نہیں چھوڑا۔ اسموگ اور فضائی آلودگی میں 40 فیصد کردار گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھویں کا ہے۔

شہروں کے زیادہ تر علاقوں میں ٹینکی تعمیر کرنے کی بجائے براہ راست ٹیوب ویل سے پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پانی کے ذخائر مسلسل کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی کے شہریوں کا سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی ہے اور کئی دہائیوں سے یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔

بڑے شہروں میں آبادی جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے وسائل اسی رفتار سے کم ہورہے ہیں، ان میں پینے کا صاف پانی اور فضائی آلودگی کم کرنے کے اقدامات کے بجائے کالونیوں اور سڑکوں کی بھرمار جاری ہے۔ ہم اگلی نسلوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہم نے اس ملک کا ایسا برا حال کیا ہے کہ اس کے شہر رہنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہاں انسانی حقوق، ماحولیات پر آواز اٹھانے کے لیے کوئی تنظیم بنائے تو انہیں ’خونی لبرل‘ ’مغرب کے آلہ کار اور ایجنٹ‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp