’یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے‘
عبد الرشید شاہد مرحوم نے محبت کے ساتھ مجھے اپنے ساتھ لپٹایا اور یہ مصرع پڑھا۔ اس واقعے کو گزرے 35 سے 40 برس تو بیت ہی چکے ہوں گے لیکن خلوص کی گرمی اور ایک سینیٹر کے طور پر دلجوئی کا یہ انداز میری روح میں اتر گیا۔ اتنے گہرے احساس کی بنیاد ایک ماحول ہے جس سے تقریباً ہر صحافی گزرتا ہے۔
اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ صحافی ہے لیکن اسے نیوز روم میں کام کرنے کا موقع نہیں ملا تو اس دعوے کو تسلیم کرنے میں مجھے تامل ہو گا۔ سبب یہ ہے کہ اخباری صنعت میں نیوز روم ایک ایسی جگہ تھی (ماضی کا صیغہ بہ قائمی ہوش و حواس استعمال کیا گیا ہے) جس کے منفرد ماحول سے ملنے والی محبت اور آزمائش کی کٹھالہ سے گزر کر ہی کوئی نو آموز کندن بن پاتا۔ اس جگہ اگر دنیا بھر کے موضوعات سے واسطہ پڑتا تو مختلف زبانوں کے رموز بھی سمجھ میں آتے۔ اس کے علاوہ غیر معمولی دباؤ کے ماحول میں کام کرنے کی تربیت ہوتی۔ صرف یہی نہیں، ساتھیوں کی باہمی چپقلش اور تعصبات کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ تلخ کلامی ہوتی، گالی گلوچ ہوتی، ٹانگیں کھینچی جاتیں اور اگر حوصلہ افزائی کرنے والے حوصلہ بڑھاتے تو جی بھر کر حوصلہ شکنی بھی کی جاتی۔ ’مشرق‘ کے نیوز روم میں تجربہ کار صحافیوں کے بیچ بیٹھ کر مجھے کام کرنے کا موقع ملا تو اس کہ وجہ جناب مشتاق سہیل تھے۔ ان کا تعلق پنجاب سے تھا اور اتفاق سے میرا بھی۔ اسی سبب سے ایک صاحب کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر میرے ساتھ تلخ کلامی کرتے ہوئے حد سے گزر جاتے۔ اس روز میں اسی تلخی کو جھیلتا ہوا نیوز روم سے نکل کر پیسٹنگ سیکشن میں پہنچا تو عبد الرشید شاہد نے میری طرف دیکھا اور مجھے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا:
‘یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے ‘
رشید شاہد صاحب ’مشرق‘ کراچی کے شعبہ آرٹ کے سربراہ تھے۔ بنیادی طور پر وہ خطاط تھے لیکن سینیئر ہو جانے کے بعد ان کی ذمے داری میں اخبار کی پیسٹنگ اور ڈیزائن کے شعبے بھی شامل ہو چکے تھے۔ نائٹ ڈیسک پر کوئی ساڑھے تین اور ساڑھے چار بجے کام شروع ہو جاتا۔ آئندہ 4 گھنٹے کے دوران میں کافی حد تک اندازہ ہو جاتا کہ اخبار کی شکل و صورت کیا ہوگی۔ یہی سبب تھا کہ رشید شاہد صاحب ٹھیک 8 بجے مسطر لے کر نیوز روم پہنچ جاتے اور مشتاق سہیل صاحب کے پہلو میں بیٹھ کر لے آؤٹ کا خاکہ تیار کرتے۔ کوئی ساڑھے 10 سے 11 بجے کے قریب مشتاق سہیل صاحب مجھے اشارہ کرتے کہ تیار شدہ میٹیریل (اخباری زبان میں ان دنوں اسے میٹر کہا جاتا تھا) اپنی تحویل میں لے کر صفحہ آخر سے پیسٹنگ شروع کرا دو۔ جس روز وہ واقعہ ہوا، ایک سینیئر کی بد سلوکی کی وجہ سے میرا دل دکھ سے لبالب بھرا ہوا تھا جس کے آثار چہرے پر صاف دکھائی دیتے تھے۔ میں میٹر یعنی کتابت شدہ خبریں ہاتھ میں لیے پیسٹنگ ڈیسک پر پہنچا تو میری کیفیت دیکھ کر رشید شاہد صاحب نے تسلی دی اور سید صادق حسین نامی شاعر کا وہ معروف مصرع پڑھا جسے غلطی سے اقبال سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے تند و تیز ندی میں غوطے کھاتے کھاتے اچانک سہارا مل گیا ہو۔
میری نسل کے لوگ جب کوچہ صحافت میں داخل ہوئے، نوری نستعلیق کی ایجاد کئی برس پرانی ہوچکی تھی لیکن کراچی کے روزنامہ ’مشرق‘ میں اس وقت تک نوری نستعلیق کا نور نہیں پہنچا تھا، اس لیے سرخیوں سمیت اخبار کا سارا مواد ہاتھ سے لکھا جاتا۔ اس زمانے کا کتابت خانہ بڑی دلچسپ جگہ تھی۔ کاتب کے ہاتھ میں قلم ہوتا اور نگاہ مسودے پر لیکن اس کا ذہن کہیں اور ہوتا۔ کاتب حضرات باتوں میں مصروف رہتے، ان کے درمیان لطیفوں اور گالیوں کا کھلا تبادلہ ہوتا۔ کسی کی زبان پر پچھلے روز دیکھی ہوئی فلم کے گانوں کے بول ہوتے یا ہوش ربا ہیروئین کے ناز و انداز کا تذکرہ۔ ان خوش گپیوں کی وجہ سے بعض اوقات کام میں تاخیر بھی ہو جاتی۔ رشید شاہد صاحبِ صوم و صلوٰۃ کے پابند اور نفیس مزاج رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود جیسے ہمارے بزرگ کیا کرتے ہیں، کتابت خانے کے لونڈے لپاڑوں کی خوش گپیوں کی طرف سے وہ اپنے کان بند رکھتے۔
ایک دفعہ کتابت خانے میں کچھ ایسا غدر مچا کہ کام میں کافی تاخیر ہوگئی۔ یعقوب صاحب اخبار کی شہ سرخی لکھا کرتے تھے۔ معلوم نہیں کس وجہ سے سرخیاں لکھنے میں بھی تاخیر ہوگئی۔ کشیدگی اس قدر زیادہ تھی کہ کوئی کسی دوسرے کا ہاتھ بٹانے پر آمادہ نہ تھا۔ یہ دیکھ کر رشید شاہد صاحب پیسٹنگ ڈیسک سے ہٹے اور کچھ کہے سنے بغیر سرخیاں لکھنی شروع کردیں۔ اس کے بعد ہنگامہ سرد پڑگیا اور کام کی رفتار تیز ہوگئی۔ اس روز میری سمجھ میں آیا کہ قیادت اسی کو زیبا ہے جسے کام آتا ہو، چھوٹا بڑا کام کرنے میں اسے کوئی عار نہ ہو اور شور شرابے کے بجائے انسان حکمت سے کام لے تو بہت سے بگڑے کام آسانی کے ساتھ بن جاتے ہیں۔
رشید شاہد صاحب کتنے بڑے خطاط تھے، نوری نستعلیق کے عہد میں یہ سمجھنا مشکل ہے۔ یہ درست ہے کہ نوری نستعلیق نے کتابت کا کام سہل کردیا ہے اور ماضی کی طرح گھنٹوں کتابت خانے میں بیٹھ کر کاتب حضرات کی منت سماجت نہیں کرنی پڑتی لیکن آج کی آسانی قطعاً میسر نہ آتی اگر اس میں رشید شاہد صاحب اپنے فن کا حصہ نہ ڈالتے۔ نوری نستعلیق کے بانی احمد جمیل مرزا مرحوم تھے جنہوں نے ایک اور بزرگ خطاط کے انداز تحریر کو مشین کے ذریعے لکھنا ممکن بنایا۔ اتنی بات تو ساری دنیا جانتی ہے لیکن اردو کے الفاظ کے ایسے پیچیدہ جوڑ دستیاب نہ تھے جنہیں کمپیوٹر سمجھ سکتا۔ احمد جمیل مرزا کی تحریک پر یہ جوڑ رشید شاہد صاحب نے ہی تیار کیے تھے۔ اس لیے اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ بیسویں صدی کی نوری نستعلیق جیسی اہم ایجاد کے بانی کی حیثیت سے انہیں بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا تو غلط نہ ہوگا۔ صدمے کی بات یہ ہے کہ چوںکہ وہ درویش صفت تھے، اس لیے ان کے اس کارنامے کی کسی کو خبر ہوسکی اور نہ اس ایجاد کے دیگر موجدوں کی طرح وہ انعامات اور اعزازات کے حقدار قرار پائے۔
مشینی کتابت کے ذکر میں نوری نستعلیق کا ذکر ہوا ہے تو پھر یہ بات بھی ضرور ریکارڈ پر آنی چاہیے کہ گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں کسی صاحب ذوق نے پاکستان کے عظیم خطاطوں کے خط کے نمونوں کو محفوظ کیا تھا۔ اس سلسلے میں رشید شاہد صاحب سے بھی رابطہ کیا گیا اور ان کی خطاطی کو خط رشید کے نام سے محفوظ کر لیا۔ اگر کوئی چاہے تو ان کے خط کا سافٹ ویئر حاصل کرکے اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔
رشید شاہد اتنے اچھے خطاط کیسے تھے اور اس فن کے بارے میں ان کے ذہن میں تخلیقی خیالات کیسے آ جاتے تھے، یہ ماجرا بھی کچھ کم دلچسپ نہیں۔ ضلع گوجرانولہ کا ایک قصبہ حضرت کیلیاں والا کے نام سے معروف ہے۔ قصبے کی واحد وجہ شہرت یہ ہے کہ پاکستان کے مایہ ناز خطاط محمد یوسف مرحوم کا تعلق اس قصبے سے تھا۔ محمد یوسف اپنے فن کے اتنے بڑے استاد تھے کہ تفہیم القرآن کی کتابت کے لیے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ جیسی نفیس شخصیت کی نظر ان پر پڑی۔ مولانا ان کے سوا کسی دوسرے خطاط پر اس معاملے میں بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ حضرت کیلیاں والا کے خطاط اپنے فن کی نفاست کے لیے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ رشید شاہد مرحوم کا تعلق خطاطی کے اسی نابغہ روزگار خاندان سے تھا۔
رشید شاہد صاحب کے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز تو روزنامہ مشرق سے ہوا لیکن ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع رہا ہے۔ 80 اور 90 کی دہائی میں پاکستان کے اہم ترین ہفت روزہ تکبیر کا سرورق بڑا رجحان ساز رہا ہے۔ ملک کے درجنوں ہفت روزوں اور رسالوں نے سرورق کے اسی اسلوب کی پیروی کی جس کے بانی رشید شاہد مرحوم تھے۔ ’تکبیر‘ کا سرورق فنی اور پیشہ ورانہ انداز میں کتنا مکمل اور دیدہ زیب ہوتا تھا، اس کا اندازہ شہید محمد صلاح الدین کی گفتگو سے ہوتا ہے۔ ٹائٹل کے روز ایک روز گھر جاتے ہوئے انہوں نے مجھے بھی اپنی گاڑی میں بٹھا لیا۔ ان کے معاون ثروت جمال اصمعی بھی موجود تھے۔ دوران گفتگو ہفتہ جاریہ کے سرورق کا ذکر ہوا تو صلاح الدین صاحب کہنے لگے کہ یہ شخص جان مار کر کام کرتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ لحظہ خاموش ہوئے پھر کہا:
’سچے فنکار اپنے فن کا معیار برقرار رکھنے کے لیے ایسے ہی کیا کرتے ہیں‘۔
صلاح الدین صاحب ’تکبیر‘ کے سرورق کا مسودہ ہمیشہ اپنے ہاتھ سے لکھا کرتے تھے جس روز انہیں شہید کیا گیا، ان کی آخری تحریر بھی ’تکبیر‘ کا سرورق ہی تھا۔ رشید شاہد صاحب نے ان کی شہادت کی خبر سنی تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اسی دوران میں انہیں کوئی خیال آیا اور انہوں نے دراز کھول کر شہید کے ہاتھ کی لکھی آخری تحریر نکال کر بیگ میں ڈال لی۔ برادرم سجاد عباسی نے ان کی رحلت خبر دی تو دل میں ایک ہوک اٹھی کہ کاش رشید شاہد صاحب جیسے نامور خطاط کے ہاتھ کی کوئی تحریر میرے پاس بھی ہوتی۔ یہ سال 1985 کے آس پاس کی بات ہوگی، ٹیلی ویژن پر حضرت امام حسین کے آخری خطبے کی سلائیڈ چلی۔ مشتاق سہیل صاحب نے تیزی سے اسے نقل کرلیا۔ کچھ دیر کے بعد رشید شاہد صاحب نیوز روم میں آئے تو خاموشی کے ساتھ یہ تحریر اٹھا کر جیب میں ڈال لی۔ اگلے روز خطبے کا یہ اقتباس ایک شاندار کتبے کی صورت میں انہوں نے مشتاق سہیل صاحب کو پیش کیا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اس کتبے کی رنگین تصویر میرے پاس محفوظ ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔