امر شاہد کے ابّا

پیر 24 جون 2024
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’عید قریب تھی۔ عید کے بعد میں نے نئی کلاس اور نئے اسکول جانا تھا۔ ہم باپ بیٹا گھر سے اس ارادے سے نکلے کہ دونوں اپنے لیے نئے جوتے خرید کر لائیں گے اور عید پر پہنیں گے۔ باٹا کی دکان پر پہنچے اور اپنے اپنے جوتے پسند کرکے کاؤنٹر پر بِل بنوانے لگے۔ بِل بنا تو پیسے کم پڑ گئے کیونکہ میں نے جو جوتا پسند کیا تھا وہ بہت مہنگا تھا۔ ابّا نے دکان دار سے کہا، بس آپ میرے بیٹے کے شوز فائنل کر دیجیے میں اپنے پھر کبھی لے لوں گا۔‘

مذکورہ واقعہ پڑھا تو میں نے کتاب بند کرکے گود میں رکھ لی اور آنکھیں مُوند لیں۔ ذہن کے پردے پر فلم سی چلنے لگی کہ کیسے ایک باہمت شخص نے غربت اور تنگ دامانی کے باوجود جہدِ مسلسل اور حمیت کی بدولت ایک چھوٹی سی آنہ لائیبریری سے کتابوں کے ایک بڑے شو روم تک کا سفر طے کیا، جو آج دنیائے اُردو کا جانامانا اشاعتی ادارہ ہے۔

امر شاہد نے اپنے ابّا شاہد حمید (26 مئی 1951۔۔ 17 مارچ 2021) کی حیاتِ جاوداں، کامیابیوں کے طویل سفر اور نشیب و فراز کی کہانی دلنشیں پیرائے میں تالیف کی ہے۔ کتاب کا نام ’شاہد حمید: اے عشقِ جُنوں پیشہ‘ رکھا گیا ہے۔ امر شاہد کہتے ہیں کہ ’انہیں ’پاپا‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ شاید بچپن ہی سے عادت تھی۔ دُور جا کر بس گئے تب سے زبان پر ’ابّا‘ چڑھ گیا۔ اب سوچتا ہوں، ’پاپا‘ میں وہ بات نہ تھی جو ’ابّا‘ کہنے میں ہے۔ ابّا اور ربّا ہم معنی سے لگتے ہیں۔‘

شاہد حمید نے 5 سو روپے سے آنہ لائیبریری کی بنیاد رکھی، پھر مدتوں بعد شبانہ روز محنتانے کا ثمر انہیں ’بک کارنر‘ کی صورت میں ملا۔ جہلم بک کارنر کے پلیٹ فارم سے پہلی کتاب ’ٹارزن کا خزانہ‘ چھاپی گئی تھی جو اب ہزاروں ٹائٹلز کی اشاعت کے ساتھ ہند سندھ کا اہم اشاعتی ادارہ ہے۔

امر شاہد کہتے ہیں کہ ’ابّا سیلف میڈ آدمی تھے، اَن تھک محنت سے مقام حاصل کیا۔ مجھے اور بھائی گگن کو بھی ہمیشہ سیلف میڈ بننے کا سبق دیا۔ تدبّر، جدّت خیالی اور طرزِ نو کو اپنانے کی ترغیب دیتے۔ ہمیں زندگی کی سختیوں اور جدوجہد کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتے رہتے۔ گرمیوں کے موسم میں ابا کی قمیص جسم سے چپک جاتی، مگر وہ خوش رہتے کہ دن بڑا ہے اور کام کرنے کا موقع خوب مل رہا ہے۔‘

مزید پڑھیں

شاہد حمید کتاب کی ترتیب، آرائش، پرنٹنگ اور بائنڈنگ سے لیکر اس کی فروخت تک کے تمام جاں گسل مراحل ذمہ داری سے نبھاتے تھے۔ انہیں کتاب سے عشق تھا جو ان کے رزق کا وسیلہ بھی بن گیا۔ زندگی بھر کتاب اور مطالعے کے فروغ میں کمر بستہ رہے۔ امر شاہد لکھتے ہیں کہ ’ابّا کی دُور اندیشی تھی کہ اپنے پیشے سے جوڑنے کے لیے انہیں کچھ کہنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ کتاب ہماری دُھن تھی، وہی دَھن کا ذریعہ بن گئی اور کیا چاہیے تھا۔‘

شاہد حمید کے بچپن کے دوست شبیر جہلمی بتاتے ہیں، 1983 کی بات ہے، میری موجودگی میں شاہد بھائی کے پاس ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ جتنی مرضی کوشش کرلیں، جہلم میں میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس شخص کی بات پر شاہد صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا کہ بے فکر رہیے، ان شااللہ میں آپ کو کامیاب ہو کر دکھاؤں گا۔ یوں انہوں نے یہ مقولہ غلط ثابت کر دیا کہ ’آگے بڑھنا ہے تو جہلم سے نکلنا ہے۔‘

رواں برس 14 جنوری کو صحافی دوست اعظم خان کی ہمراہی میں ’جہلم بک کارنر‘ جانا ہوا تو وہاں گگن شاہد اور امر شاہد سے بھی ملاقات ہوئی۔ کئی کتابیں خریدیں جبکہ ’شاہد حمید: اے عشقِ جُنوں پیشہ‘ امر شاہد نے تحفتاً پیش کی تھی۔ شاہد حمید کے دونوں صاحبزادوں نے اپنے ابّا کا کتاب سے محبت کا مشن حِرزجاں بنا رکھا ہے۔ بقول شہزاد نیئر ’کتاب کی جمالیات کا سب سے اچھا ادراک و احساس بک کارنر جہلم کو ہے۔ اس کی شائع کردہ کتاب ہاتھ میں آتے ہی دھڑکنے لگتی ہے۔ صفحات پلٹیں تو باتیں کرنے لگتی ہے۔

شاہد حمید کی تصاویر، ان کے بارے میں شکیل عادل زادہ سمیت نامور مشاہیرِ ادب، ممتاز صحافیوں اور آنہ لائیبریری سے فیضیاب ہونے والے قارئین کی آرا بھی کتاب میں شامل ہے۔ گگن شاہد اور امر شاہد کے مضامین بھی کتاب کا اہم حصہ ہیں۔ شاہد حمید کی جہدِ مسلسل کی کہانی پڑھ کر یقین بڑھتا ہے کہ انسان کچھ کرنے کی ٹھان لے تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ اگر آپ بھی زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب آپ کے لیے ازحد ضروری ہے۔

پاکستان میں گھر گھر کتابیں پہنچانے کا سلسلہ بھی پہلی بار ’بک کارنر‘ ہی سے شروع ہوا۔ ایک کال، ایک میسج، ایک کلک پر بک پارسل قارئین کے دروازے پر ہوتا ہے۔ 247 صفحات پر مشتمل کتاب کے دیدہ زیب سرورق کے مصور کولکتا کے رجیب گائن ہیں۔ کتاب میں شاعروں کے شاعر انور مسعود کا قطعہ بھی شامل ہے:

وہیں پر ہے اشاعت کا وہ مرکز
جو شاہد کی مشقت کا ثمر ہے
بہت مشہور ہے اب شہر جہلم
وہی جہلم جہاں بک کارنر ہے

’ترکش‘ والے آصف محمود نے لکھا ہے کہ ’بک کارنر کو اب کسی حوالے کی ضرورت نہیں۔ اب جہلم کا حوالہ بک کارنر ہے۔ جس شخص کا خواب تعبیر پا کر اپنے شہر کا حوالہ بن جائے اس شخص کو کب موت آتی ہے؟۔‘

اعجاز توکل نے شاید شاہد حمید کے لیے ہی کہا تھا:
قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں

’ابّا کو سپردِ خاک کیے دو روز گزرے تھے۔ گلزار صاحب کا فون آیا۔ انھیں گل شیر بٹ سے خبر ہوئی۔ وہ اپنے دوست کے جانے پر آزُردہ تھے، کہنے لگے:
’امر، میرا ایک کام کرو گے؟ ‘
میں نے کہا، ’جی، حکم کیجیے!‘
’ابّا کی قبر پر جاؤ تو میری طرف سے ماتھا ٹیک دینا، میں سمجھوں گا میں نے اپنے دوست کو الوداع کہہ دیا۔‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp