بھارت کی مرکزی حکومت نے یو جی سی نیٹ کا امتحانی پرچہ لیک ہوجانے کے باعث نتائج کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کے دوبارہ انعقاد کا اعلان کیا جبکہ اس 4 گھنٹے کے اس امتحان میں بھارت کے 300 سے زیادہ شہروں میں 9 لاکھ امیدواروں بیٹھے تھے۔
مزید پڑھیں
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی کی وزارت تعلیم نے ایک بیان جاری کیا جس میں امکان ظاہر کیا کہ امتحانی پرچہ لیک ہوگیا۔ اس کے ایک دن بعد وزیر دھرمیندر پردھان نے بھی اعتراف کیا کہ امتحانی پرچہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام اور ڈارک نیٹ پر لیک ہوگیا تھا۔
امتحانی عمل میں غیر شفافیت اور مبینہ پیپر لیک کی وجہ سے وزارت تعلیم نے امتحان منسوخ کیا اور اس معاملے کو مکمل تحقیقات کے لیے سی بی آئی کے بھی حوالے کردیا گیا ہے۔
اس صورتحال پر امتحان دینے والے طلبا میں بیچینی پھیل گئی ہے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اتنی محنت سے امتحان دیا جس کے لیے انہیں دور دراز علاقوں سے بھی چل کر آنا پڑا لہٰذا اب ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ مشقت دوبارہ کریں۔
یو جی سی نیٹ امتحان جونیئر ریسرچ فیلوشپ کے ایوارڈ اور اسسٹنٹ پروفیسر کی شکل میں تقرری و پی ایچ ڈی میں داخلے کے لیے ہندوستانی شہریوں کی اہلیت مقرر کرنے کا ایک امتحان ہے۔ اس امتحان کے لیے نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
اس صورتحال پر پیر کو دہلی میں زبردست احتجاج کیا تیا جس میں طلبا نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ طلبا نے ہاتھوں میں پلے کارڈ لے کر وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کے خلاف احتجاج کیا۔ اس موقعے پر احتجاج میں شریک لوگوں نے وزیر تعلیم کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا۔
25 سالہ فری لانس محقق اور معذور خاتون کاویہ مکھیجا نے بھی ہندوستانی یونیورسٹیوں میں داخلہ سطح کی تدریسی پوزیشنوں کے لیے حکومت کے زیر انتظام اس اہم امتحان کو دینے کے لیے گھنٹوں کا سفر کیا تھا۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ میرے پاس دوبارہ اس امتحان سے گزرنے کی توانائی ہے۔ پٹنہ شہر کے آرچیت کمار کو بھی اسی طرح کے چیلنج کا سامنا ہے۔
مذکورہ امتحان میں بہت سے امیدواروں نے مشکوک طور پر زیادہ نمبر حاصل کیے تھے۔ امیدواروں نے کھلے عام اطلاع دی کہ ٹاؤٹس نے امتحان سے چند گھنٹے قبل سوالیہ پرچوں کے لیے 30 لاکھ روپے مطالبہ کیا۔ کچھ نے ثبوت کے طور پر کالز بھی ریکارڈ کیں۔
بہت سے طلبا اور والدین دوبارہ ٹیسٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس مقصد کے لیے عدالتوں میں متعدد درخواستیں دائر کی گئی ہیں اور سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔