قربانی کے گوشت کا کاروبار

بدھ 26 جون 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہم اسلام آباد میں چند روزہ قیام کے بعد لاہور میں اپنے گھرواپس پہنچے توکیا دیکھتے ہیں کہ گیراج میں ایک بڑا فریج پڑا ہوا ہے۔ دوپہر کا وقت تھا اور گیراج میں خوب دھوپ پڑرہی تھی، اوپر سے گرمیوں کا موسم، یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟ فریج سے خون رس رہا تھا جس کی ناگواربو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔

یہ تین اپارٹمنٹس پر مشتمل احاطہ نما بڑا سا گھر تھا، جس کا ایک مشترکہ گیراج تھا اور ملازموں کے لیے باہر کی طرف ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ کچھ پریشانی بھی ہوئی اورچند لمحوں میں کئی طرح کے وسوسے ذہن میں آئے۔ اس طرف تو دھیان ہی نہ گیا کہ یہ بڑی عید کا موقع ہے اور گوشت جمع کرنے کے دن ہیں۔ فریج کا دروازہ کھولا تو یہ گوشت سے لبا لب بھرا ہوا تھا۔ اوپر فریزر کا خانہ کھولا تو وہاں بھی یہی حال تھا۔ اندازاً کوئی من بھر گوشت تو ضرور ہو گا۔

یہ بڑی عید کا تیسرا دن تھا۔ خیر تھوڑی دیر بعد عقدہ کھل گیا۔ یہ سب وہاں رہنے والے ملازمین کا کارنامہ تھا۔ یہ دو میاں بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ مقیم تھے۔ لڑکا رکشا چلاتا تھا اور اس کی بیوی گھر وں میں کام کرتی تھی۔ وہ لڑکا ہماری آواز سن کرنیچے آ گیا۔ کافی پریشان لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کہنے لگا کہ میں نے عید کے لیے قسطوں پر نیا فریج خریدا ہے اور محلے سے اور دور دراز سے بڑی مشکل سے یہ گوشت اکٹھا کیا ہے۔ اس نے اپنے کارنامے کی مزید جزئیات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اوپر والے خانے میں چھوٹا گوشت ہے اور نیچے بڑا گوشت ہے۔ میں نے پوچھا لیکن بھائی یہ یہاں پورچ میں کیوں پڑا ہے؟ تو اس نےاپنی پریشانی بیان کی کہ مالک مکان کوجب علم ہوا کہ انھوں نے فریج خرید لیا ہے تو اس نے ان کے کمرے کی بجلی کاٹ دی اور کہا کہ جلد از جلد سامان اٹھا کر یہاں سے چلتے بنو۔ مالک یہ کہہ کر چلا گیا لیکن اب گوشت کو بچانے کے لیے فریج یہاں پورچ میں رکھ کر چلا رہا ہوں۔

میں نے کہا، تو بھائی مالک مکان عید کے بعد جس دن بھی چکر لگائے گا تو تمھارا فریج باہر پھینک دے گا، اور یہاں تو گوشت ویسے بھی خراب ہو جائے گا۔ کہنے لگا نہیں، ایسا نہیں ہو گا کیونکہ میں اسے آج شام تک ٹھکانے لگا دوں گا۔ میں نے کہا بھائی یہ کوئی لاش ہے جو ٹھکانے لگاؤ گے؟ بولا، وہ قصائی سے بات ہو گئی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ آج دکان پر پہنچا دینا۔

خیر میں نے مالک مکان سے فون پر گزارش کر کے وقتی طور پر اس کا مسئلہ حل کرا دیا۔ کچھ مزید تفتیش کرنے پر اس نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کاروبار کا گر بتایا کہ اس عید پر جمع ہونے والے گوشت سے فریج کے پیسے پورے ہو جائیں گے۔

یہ چند برس پہلے کا و اقعہ یوں یاد آیا کہ ابھی بڑی عید کو چند دن ہی گزرے ہیں۔ کل ایک لڑکے سے ملاقات ہوئی جو ایک ہوٹل پر کام کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ بڑی عید کے بعد کئی لوگ ہوٹلوں کو اور قصائیوں کو سستے داموں قربانی کا گوشت فروخت کرتے ہیں۔ سوچیے تو قربانی اور کاروبار کا یہ کیسا سنگم اور کیسا دائرہ ہے۔ ہم پہلے پیسوں سے قربانی کا جانور خریدتے ہیں، پھر قربانی کر کے گوشت بانٹا جاتا ہے، غریب گوشت اکٹھا کر تے ہیں، اور پھر وہی گوشت فروخت کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے سب لوگ تو ایسا نہیں کرتے لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت سے نظریں چرانا مشکل ہے کہ جولوگ منوں ٹنوں کے حساب سے گوشت اکٹھا کر رہے ہوتے ہیں، اسے وہ کیسے کھا سکتے ہیں؟ یا تووہ خراب ہو جاتا ہے یا بیچ دیا جاتا ہے کیونکہ فریز کیا ہوا گوشت بھی طویل مدت تک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔

لوگ نمود و نمائش کے لیے لاکھوں کے جانور خرید کر سڑکوں پر ٹہلائی کرواتے اور تصاویر اور ویڈیوز بناتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہوں گے جواس چکر میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر قربانی کرتے ہوں گے اور کتنے ہی معمول سے ہٹ کر چند دنوں میں اتنا سارا گوشت کھا کر اپنی صحت برباد کر لیتے ہوں گے۔ قربانی جس مقصد کے تحت کی جاتی ہے، یعنی غریبوں اور مستحقین تک گوشت پہنچانے کے لیے، تو وہ مقصد اس طرح پورا نہیں ہو پا رہا اور گوشت جمع کرنے والے پیشہ ور اسے بیچ کر اپنا کام چلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ گوشت اس لیے بیچا جاتا ہے کہ ان غریبوں کی ضروریاتِ زندگی میں گوشت کے علاوہ دیگر لوازمات بھی شامل ہیں، جیسا کہ مذکورہ جوڑے نے عید پر جمع ہونے والے گوشت سے فریج کے پیسے پورے کرنے کے کاروباری تصور کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تھی۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ چلیں اس طرح غریبوں کی بالواسطہ مدد ہی ہو رہی ہے، لیکن اس میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اس سارے عمل کے دوران کتنا بڑا سرمایہ غریبوں تک پہنچنے کی بجائے درمیان میں جانور بیچنے والوں، آڑھتیوں اور قصائیوں وغیرہ کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ گوشت حاصل کرنے والوں میں سے بیشتر پیشہ ور ہوتے ہیں اور صحیح معنوں میں ضرورت مند تو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا بھی گناہ سمجھتے ہیں، سو قربانی کو بامعنی بنانے اور گوشت کی اصل مستحقین میں تقسیم کا سرکاری سطح پر مربوط نظام بنانے کی ضرورت ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp