پاکستان کی سیاست میں مزاحمت کو لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جب ریاست میں سیاست کو شجر ممنوعہ بنایا جائے گا تو سیاسی رہنما اس رویے کے خلاف مزاحمت تو کریں گے۔ یقیناً ایسے حالات میں واحد راستہ مزاحمت ہی کا بچتا ہے۔
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے سیاستدانوں نے ہر دور میں سیاسی مزاحمت کا راستہ اختیار کئے رکھا اور اس کی بھاری سے بھاری قیمت بھی چکائی۔ ہر دور کی سیاسی مزاحمت آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کی گئی۔
۔ سیاسی قائدین نے کبھی بھی عوام کو سول نافرمانی یا بغاوت کا درس نہیں دیا بلکہ کبھی پھانسی کے پھندے کو جرآت کے ساتھ چوما تو کبھی عمر قید اور جلاوطنی کا بہادری سے سامنا کیا۔ سیاسی جدوجہد سے فرار حاصل کرنے کے بجائے قوم سے رابطہ قائم کئے رکھا۔
عوامی نمائندے سیاسی اجتماعات کے دوران دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کیا۔ یہی وجہ رہی کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے کوڑے کھائے اور جلیوں کی سختیاں جھیلیں لیکن عوام کو ریاست میں بغاوت کی جانب مائل نہ کیا بلکہ حقیقی جمہوریت کے نفاذ کی جدوجہد مزید تیز کردی ۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے ملک میں سیاسی سرگرمیوں پر لگائی جانے والی پابندیوں کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور اس کے خلاف سیاسی مزاحمت جاری رکھی۔ ملک میں کی جانے والی جمہوریت کی بحالی کی طویل و صبر آزما جدوجہد ہی کا ثمر تھا کہ اگر چہ کہ ملک میں چار مرتبہ فوجی آمریتیں مسلط ہوئیں لیکن پاکستان کے عوام نے اسے ہر بار شکست فاش دی اور آمر وقت کو جمہوریت کی بحالی پر مجبور کیا.
ہر بار فوجی آمر عالمی حمایت کے باوجود سیاسی جماعتوں کی تحریک کی وجہ سے جمہوریت بحال کرنے پر مجبور ہوئے۔ ہم ملک میں بار بار جہموریت کی بحالی کی تحریک کی کامیابی کو بجا طور پر پاکستان کا سیاسی ارتقاء کہہ سکتے ہیں.
ابتدائی تین مارشل لاؤں کے خلاف ہونے والی ملک گیر مزاحمت میں صوبہ پنجاب کا کردار بہت معمولی رہا۔ اسی وجہ سے پنجاب کو ملک کے بیشتر مسائل میں ملک کی طاقتور مقتدرہ کا حصہ دار قرار دیا جاتا رہا ہے، لیکن 1993 کے بعد قومی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہونا شروع ہوا کہ جب صوبہ پنجاب میں پیدا ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا ۔
قومی اسمبلی توڑی گئی اور حکومت کو ختم کیا گیا تو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر تسلیم کرنے پر اکتفا کرنے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نواز شریف اس وقت طاقتور مقتدرہ کے نمائندہ غلام اسحاق خان کو اپنے ساتھ لے کر اقتدار سے رخصت ہوئے۔
پنجاب کی جانب سے ملک کی طاقتور مقتدرہ کے خلاف مزاحمت کا یہ پہلا موقع تھا ۔اس کے بعد سے اہل پنجاب نے پہلے میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں اور اب مریم نواز کی لیڈرشپ میں ماضی کا کفارہ ادا کردیا ہے۔
نواز شریف نے 1993 میں ببانگ دھل ملک کی طاقتور مقتدرہ سے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تو 1999 میں نتائج کی پرواہ کئے بغیر بے پناہ بہادری کے ساتھ باوردی فوجی جنرلوں کو اسمبلی توڑنے کے پروانے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ۔ نتیجتاً ہائی جیکر کی حیثیت سے عدالت کا سامنا کیا، جس کے بعد انہیں اس ناکردہ جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی جو سرزد ہی نہیں ہوا تھا ۔
جلاوطنی کا عذاب جھیلا لیکن غاصب کے آگے سرِ تسلیم خم نہ کیا۔ 2017 میں طاقتور مقتدرہ کی حمایت کے ساتھ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بعد ازاں ایک ایسے مقدمے میں اقتدار سے معزول ہوئے کہ جس کا متنازع فیصلہ عدلیہ کی توقیر میں اضافے کا کبھی باعث نہ بن سکے گا ۔
2018 میں اپنی سیاسی فکر سے دستبردار ہو کر لندن میں مقیم رہنےکے بجائے اپنی وفاشعار بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑا اور اپنی بہادر بیٹی مریم نواز کا ہاتھ تھام کر عہد حاضر میں بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کردی ۔ باپ اور بیٹی دونوں اس شان سے زنداں گئے کہ اہل پنجاب کا ہی نہیں بلکہ جمہوریت پر یقین رکھنے والے اہل پاکستان کے سر فخر سے بلند ہو گئے.
نواز شریف اپنے علاج معالجہ کے باعث بیرون ملک گئے تو مریم نواز نے اس خلا کو انتہائی جرآت و بہادری کے ساتھ پر کردیا۔ مریم نواز بلا کسی جرم پابند سلاسل ہوئیں۔ انہوں نے جس بہادری سے ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے قربانی پیش کی وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔
بعد ازاں مریم نواز نے اپنی سیاسی فکر اور طرزِ عمل سے ثابت کیا کہ وہ اپنے والد میاں محمد نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں ۔ مریم نواز نے بہت دلیری سے ملک کی طاقتور مقتدرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جارحانہ انداز میں جمہوریت پر شب خون مارنے کا حساب طلب کیا تو اس طرزِ عمل نے ان کو عہد حاضر کے سیاسی رہنماؤں میں ممتاز بنادیا.
2019 مریم نواز حاضر سروس فوجی جنرلوں کے نام لیکر ان سے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا حساب طلب کر رہی تھیں۔ وہ آج اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے حوالے سے اپنے تحفظات کا برملا اظہار کررہی ہیں۔ مزید اب ایک قدم اور آگے بڑھ کر انہوں نےجنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرکے سب کو ششدر کر دیا ہے۔
مریم نواز کے اس اقدام کو پاکستان کی کمروز جمہوریت کو یک دم حوصلہ اور نئی توانائی بخشنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے ۔ مریم نواز نے گزشتہ چند برسوں میں جس بہادری کے ساتھ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے ضمن میں اپنی بے مثال قربانیوں سے عبارت جدوجہد کی ہے آج وہ اسی کی بدولت ملک میں سیاسی مزاحمت کا استعارہ بن چکی ہیں.
1970 سے قبل جب مشرقی پاکستان، پاکستان کا حصہ تھا اس زمانے میں بنگال کی جانب سے بھی اہل پنجاب کی ملک کی طاقتور مقتدرہ سے مصالحت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ مشرقی پاکستان کے عوام کو پنجاب کے اس طرزِ سیاست پر ہمیشہ اعتراض رہا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سے ملک کے بقیہ تینوں چھوٹے صوبوں پر روا رکھے جانے والے مظالم پر پنجاب کی خاموشی کو مجرمانہ فعل قرار دیاگیا.
اسی زمانے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے شاعر عوام حبیب جالب نے مشہور زمانہ نظم لکھی کہ
جاگ میرے پنجاب کے پاکستان چلا
ٹوٹ چلے سب خواب کے پاکستان چلا
ان اشعار کے ذریعے حبیب جالب نے اہلِ پنجاب کے مصالحانہ طرزِ عمل پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ۔
آج اگر شاعر عوام حبیب جالب حیات ہوتے تو وہ نواز شریف کی قیادت اور مریم نواز کی لیڈرشپ میں ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے دی جانے والی پنجاب کی بیش بہا خدمات کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے اور اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وہ یقیناً مریم نواز کے شانہ بشانہ جمہوریت کی بحالی اور اس کے فروغ کی جدوجہد میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے حوصلے اور عزم کو مزید توانائی بخشنے کے لئے نظمیں اور نغمات بھی تحریر کررہے ہوتے ۔
شاعر عوام حبیب جالب سمیت ہر محب وطن پاکستانی کا خواب تھا کہ اہل پنجاب بھی ملک کے بقیہ تینوں چھوٹے صوبوں کے ساتھ مل کر ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں عملی حصہ لے تاکہ ملک میں قومی یکجہتی اور یگانگت کو فروغ حاصل ہو سکے.
نواز شریف اور ان کی بہادر بیٹی مریم نواز نے جمہوریت پسندوں کا وہ خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔ آج اہل پنجاب نے ان کی ولولہ انگیز قیادت میں ماضی کی مصالحت پسند پالیسی کا قرض ادا کردیا ہے۔ آج پنجاب چھوٹے صوبوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی تحریک کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے ان کے شانہ بشانہ ساتھ کھڑا ہے.
درحقیقت یہی پاکستان کا سیاسی ارتقاء ہے کہ منفی قوتوں کی تمام تر سازشوں اور ہتھکنڈوں کےباوجود سیاست دان اپنی ثابت قدمی اور مثبت کردار کی بدولت قوم میں سرخرو ہو رہے ہیں۔ ملک کے اقتدار پر قابض طاقتور مقتدرہ کی گرفت کمروز پڑ رہی ہے۔
ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کی تحریک اور پنجاب کے جارحانہ سیاسی کردار کے لیے مریم نواز نے بیش بہا، شاندار اور تاریخی جدوجہد کی ہے۔ مریم نواز بجا طور پر مزاحمت کا استعارہ اور قوم کی امیدوں کا مرکز و محور ہیں.
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔