افغانستان کرکٹ ٹیم کو جیت کا چسکا لگ چکا ہے

بدھ 26 جون 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’جس دن افغان ٹیم کو جیتنے کا ہنر آگیا وہ دنیا کی ہر ٹیم کو پچھاڑ دے گی‘، یہ تبصرہ سکندر بخت کئی بار افغان کرکٹ ٹیم سے متعلق کیا کرتے تھے۔

ماضی میں کئی بار ایسا ہوا کہ افغان ٹیم جیت کے قریب ہوتی لیکن پھر اپنی ناتجربہ کاری اور غیرمعمولی دباؤ سے جیتی ہوئی بازی ہار جاتی، لیکن اب لگتا ہے کہ افغان کرکٹ ٹیم نے یہ گُر پا لیا کہ میچ کو جیتا کیسے جاتا ہے اور کس طرح فتح کو مدِمقابل کے جبڑے سے کھینچ نکالا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق انگلش کپتان مائیکل وان یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ افغان کرکٹ ٹیم، بھارت کے بعد ایشیا کی دوسری خطرناک ٹیم ہے۔

اس جیت کے بعد افغانستان میں لوگوں کی خوشی دیدنی ہے، ہر سڑک اور چوراہے پر جشن منایا جارہا ہے اور اب وہاں کے لوگ یہ امید کرنے لگ گئے ہیں کہ ان کی ٹیم فائنل میں پہنچے گی اور کپ لے کر ہی کابل لوٹے گی کیونکہ راشد خان کی قیادت میں اس افغان کرکٹ ٹیم نے پہلے نیوزی لینڈ کے خوابوں کو روندا، پھر اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور آسٹریلیا کو پچھاڑا اور بنگلہ دیش کے خلاف انتہائی کم ہدف کا جس طرح دفاع کیا، اس نے افغان کرکٹ ٹیم کو صرف فتحیاب نہیں کیا بلکہ پہلی بار ٹی20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی کا سنہرا موقع بھی دیا۔

پاکستان سے بین الاقوامی میدانوں تک

کئی برس تک جنگ و جدل کے بادلوں میں گھرے ہوئے افغانستان کے نوجوانوں کے لیے جہاں ہر شعبے میں تنزلی ہورہی تھی وہیں کھیل کے میدان میں بھی وہ پیچھے تھے۔ 90 کی دہائی کا یہ وہ دور تھا جب دنیائے کرکٹ پر پاکستانی کھلاڑی وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، شعیب اختر سمیت کئی ستارے پوری آب و تاب سے چمک رہے تھے۔ ایسے میں شاہد خان آفریدی اپنی دھواں دھار بیٹنگ اور بولنگ کی وجہ سے ہر نوجوان کے رول ماڈل بنے ہوئے تھے۔

خیبرپختونخوا کے نوجوان خصوصی طور پر ان سے متاثر ہوئے اور آفریدی کو دیکھ کر نوجوانوں کی بڑی تعداد نے کرکٹ کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ شاہد آفریدی سے متاثر ہونے والوں میں افغان نوجوان بھی شامل تھی۔ اس دور میں سفری پابندیاں اس قدر نہیں تھیں اسی لیے کئی افغان نوجوان پاکستانی میدانوں بالخصوص پشاور کا رخ کرتے اور وہاں کے گلی کوچوں یا میدانوں میں ہر کوئی شاہد آفریدی، ثقلین مشتاق یا پھر وسیم وقار بننے کی جستجو میں رہتا۔

راشد خان کا ایک طویل عرصہ پشاور میں ہی کرکٹ کھیل کر گزرا۔ یہیں انہوں نے کرکٹ کی باریکیوں سے آشنائی حاصل کی، افغان کیمپوں میں رہتے ہوئے راشد خان کا شام کا وقت کرکٹ کی گیند سے جادو گری دکھانے میں استعمال ہوتا۔ کچھ ایسا ہی سابق وکٹ کیپر محمد شہزاد یا پھر محمد نبی اور اصغر افغان کے ساتھ بھی رہا۔

پاکستان میں مہمان کھلاڑی سمجھ کر انہیں اور زیادہ عزت اور مواقع دیے جاتے۔ کراچی کا اصغر علی شاہ اسٹیڈیم جہاں رمضان میں کرکٹ عروج پر ہوتی وہاں محمد شہزاد، محمد نبی اور اصغر افغان ایکشن میں نظرآتے۔ محمد نبی تو پاکستان کسٹمز کی جانب سے کھیلتے اور پاکستانی حکام کے ممنون و مشکور رہتے کہ انہوں نے یہ موقع دیا۔ ایسے میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں کرکٹ کے کھیل پر خصوصی توجہ دی گئی۔ یہ بات افغان نوجوانوں کے لیے ایسی تھی جیسے ان کی لاٹری نکل آئی۔

مختلف مقامات پر کرکٹ کیمپ لگتے جہاں باصلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش ہوتی اور ہیروں کی تلاش میں سابق پاکستانی کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کی جاتیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کے کھلاڑیوں نے افغانستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

راشد لطیف اور انضمام الحق نے اس دور میں افغان ٹیم بنانے میں اپنی تمام تر توانائیاں استعمال کیں جب افغانستان کے کسی نہ کسی چوراہے پر بم دھماکے عام بات تھی۔ ان کھلاڑیوں نے بلاخوف و خطر نوجوانوں کے کرکٹ کے شوق کو پروان چڑھایا۔

پاکستان کی کاوشوں کے نتیجے میں افغان کرکٹ ٹیم 2013 میں آئی سی سی کی ایسوسی ایٹ رکن بنی۔ اِدھر افغان کھلاڑی پاکستان کے مختلف ڈومیسٹک مقابلوں میں شرکت کرکے مزید مہارت حاصل کرتے رہے۔ افغانستان میں چونکہ اپنا کوئی میدان نہیں تھا اور بم دھماکوں کا بھی دھڑکا لگا رہتا تھا اس لیے ان کی بیشتر کرکٹ متحدہ عرب امارات کے مختلف میدانوں میں ہوتی رہی اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب افغانستان آئی سی سی کے مختلف ایونٹس جیت کر اس کا باقاعدہ رکن بن گیا۔

2010 میں ٹی20 ورلڈ کپ میں پہلی بار شرکت کے بعد اب افغانستان کرکٹ ٹیم مسلسل آگے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس عرصے میں اس ٹیم کو کبھی یونس خان تو کبھی عمرگل، تو کبھی رانا نوید یا پھر عمران فرحت جیسے پاکستانی کھلاڑیوں کی کوچنگ حاصل رہی جنہوں نے ان کے کھیل میں اور نکھار پیدا کیا اور جب انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں افغان کھلاڑی شریک ہونے لگے تو انہوں نے اپنے کھیل سے ہر ایک کو متاثر کیا۔

پاکستان کے کلیدی کردار کو فراموش کردیا

مگر المیہ یہ ہے کہ افغان کھلاڑی اور عوام یہ بات ہر بار فراموش کردیتے ہیں کہ آج ان کی ٹیم جس مقام پر ہے اس میں مرکزی کردار بھارت کا نہیں بلکہ پاکستانی کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کا ہے جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر افغانستان جاکر ان کو کرکٹ سکھائی۔

یہ بھی ستم ظریفی ہی ہے کہ سیاسی رنجش، ماضی کے فیصلوں اور اختلافات کا انتقام افغان عوام پاکستانی ٹیم سے لینے کے لیے ہر بار میدان میں آتے ہیں۔ پاکستان سے شکست پر ہنگامہ اور دنگا فساد عام ہے۔ اس میں کچھ قصور پاکستانی کھلاڑیوں کا بھی ہے انہوں نے ماضی میں جنہیں کرکٹ کھیلنا سکھایا اب انہی سے کبھی ہار جاتے ہیں اور کبھی جیتتے بھی ہیں تو بمشکل۔

اب تو ان دونوں ٹیمیں کا تقریباً ہر میچ ہی سنسنی خیز رہنے لگا ہے اور دل کی دھڑکنیں بے قابو ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دھیرے دھیرے بھارت کے بعد افغانستان بھی پاکستان کا روایتی حریف بن چکا ہے۔

گزشتہ سال ہونے والے عالمی کپ میں جب افغانستان کرکٹ ٹیم نے پاکستان کو شکست سے دوچار کیا تو چند افغان کھلاڑیوں نے سرحدوں کی ٹینشن اور پاکستان میں ناجائز طور پر سکونت اختیار کیے ہوئے افغان باشندوں کے خلاف آپریشن پر کچھ ایسے بیان دیے جو اس خلیج کو مزید بڑھانے کا سبب بن سکتے تھے۔ شکر ادا کریں کہ پاکستانی ٹیم سپر8 تک نہ پہنچی کیونکہ اگر اس کا ٹاکرا کسی میچ میں افغانستان سے ہوجاتا تو اس بار تو اسٹینڈز، میدانِ جنگ بھی بن سکتے تھے۔

بدقستمی تو یہ بھی ہے کہ افغان کھلاڑی بھارت کے گُن تو گاتے ہیں لیکن یہ اعتراف کرنے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی کرکٹ کو سہارا دینے میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔

اس کے برعکس افغان کھلاڑیوں کا جھکاؤ بھارت کی جانب رہتا ہے اور پاکستان کے خلاف بھرپور توانائی سے لڑنے والے افغان کھلاڑی اور عوام، بھارت سے انتہائی پُرسکون اور دوستانہ انداز میں شکست کا بوجھ ہنستے کھیلتے اٹھاتے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ جہاں آئی پی ایل ہے وہیں بھاری رقم کے عوض اسپانسرشپ بھی ہے جو بھارتی کمپنیوں سے انہیں حاصل ہوتی ہے۔

پاکستان کے لیے سبق

افغانستان کرکٹ ٹیم میں اس وقت راشد خان کے ساتھ 2 اور سابق کپتان محمد نبی اور گلبدین نائب بھی کھیل رہے ہیں۔ مگر دونوں کھلاڑی جس طرح خالصتاً ٹیم کی کامیابی کے لیے اپنی صلاحیتیں کھیل کے ہر شعبے میں دکھا رہے ہیں اور جس طرح نئے کپتان راشد خان کو اپنے قیمتی مشوروں سے نواز رہے ہیں، اسی کا ثمر ہے کہ آج افغانستان کرکٹ ٹیم سیمی فائنل کھیل رہی ہے۔ ہمارے کھلاڑیوں کے لیے یہ سبق ہے کہ عہدے اہم نہیں ہوتے بلکہ ٹیم کی مجموعی کارکردگی زیادہ معنی رکھتی ہے۔

گلبدین نائب کو عالمی کپ 2019 میں ناقص کپتانی پر اس اعزاز سے محروم کیا گیا۔ انہوں نے اس پر کوئی شور شرابا نہیں کیا اور نہ ہی ہم خیال کھلاڑیوں کا گروپ بناکر کوئی نیا منصوبہ ترتیب دیا بلکہ اس فیصلے کے بعد انہوں نے اپنی کرکٹ کو بہتر کیا، اس پر اور زیادہ توجہ دی اور ناقدین کا منہ اپنے بہترین کھیل سے بند کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ٹی20 ورلڈ کپ میں گلبدین نائب بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں اپنی ٹیم کے لیے کارگر ثابت ہوئے ہیں۔

افغان کھلاڑی ایونٹ میں سرفہرست

کیا یہ کم نہیں کہ اس ایونٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے ٹاپ 10 بولرز اور بلے بازوں میں افغان کھلاڑی چھائے ہوئے ہیں۔ ایونٹ میں سب سے زیادہ 281 رنز رحمان اللہ گرباز کے ہیں۔ بولنگ کی بات کی جائے تو فضل الحق فاروقی نے سب سے زیادہ 16 وکٹیں حاصل کرکے نامی گرامی بولرز کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ٹاپ 5 میں تو راشد خان اور نوین الحق بھی شامل ہیں۔

بیشتر افغان کھلاڑیوں کو بھی انگریزی نہیں آتی لیکن جب بھی کوئی غیر ملکی کوچ ان کا نگراں بنا تو اس کی سمجھائی ہوئی باتوں کو انہوں نے گرہ میں باندھ لیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ نہیں بلکہ کھیل ان سے برتر ہے۔

یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت افغانستان کرکٹ ٹیم ماڈرن کرکٹ کھیل رہی ہے۔ اس کے اوپنرز آتے ہی مخالف بولرز پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہ اس فکر میں نہیں رہتے کہ وکٹ بچا کر رکھیں آخر میں کام آئے گی۔ اسکور بورڈ پر ہدف کچھ بھی ہو جارحانہ کھیل بلکہ ماڈرن کرکٹ کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے افغان کرکٹ ٹیم واقعی بہترین مثال بن کر ابھری ہے۔

افغان کھلاڑی نہ کمرشلز میں آتے ہیں اور نہ ہی کسی کمپنی کے برانڈ ایمبیسڈر ہیں۔ اگر وہ ہیں تو کھلاڑی جو کھیل سے دنیا کو اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ اپنے میدان نہ ہونے اور نامساعد حالات کے باوجود بھی اگر افغان کرکٹ ٹیم سیمی فائنل کھیل رہی ہے تو بجا طور پر یہ اس کے لیے ایسا ہی ہے جیسے وہ فائنل کھیلے۔

افغان کرکٹ ٹیم کی کامیابی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ اس کے پاس ہر شعبے کے باصلاحیت کھلاڑی ہیں۔ ہر ایک کا متبادل ہے۔ وہ پاکستان کی طرح کسی ایک کھلاڑی پر بھروسہ کرکے پورا ٹورنامنٹ نہیں کھیلتی، اس میچ میں نہیں تو اگلے میچ میں اس کی فارم واپس آجائے گی۔

ذرا تصور کریں کہ اگر افغانستان کرکٹ ٹیم کو پاکستان یا کسی اور ملک کی طرح تمام تر سہولیات اور بھاری تعداد میں اسپانسرز ملیں تو یہ ٹیم کتنی زیادہ خطرناک بن سکتی ہے۔ یہ ہمارے کرکٹ بورڈ کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ اگر آپ کی نیت ٹیم بنانے کی ہو تو کم سہولیات کے باوجود بھی ایک اچھی ٹیم بنائی جاسکتی ہے۔

جیت کا فائدہ کیا ہوگا؟

سیمی فائنل کا نتیجہ چاہے کچھ بھی نکلے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کامیابی کے بعد افغانستان میں کرکٹ مزید فروغ پائے گی۔ طالبان حکومت جو کرکٹ کو سنجیدہ نہیں لیتی وہ سوچنے پر مجبور ہوگی کہ اب ٹیم اور بورڈ کے لیے کچھ کیا جائے۔ جس طرح 1992 کے عالمی کپ کے بعد پاکستان میں کرکٹ ایک نئے دور میں داخل ہوئی تھی تو یقینی طور پر سیمی فائنل تک افغان ٹیم کے آنے کے بعد افغانستان کو مستقبل میں مزید راشد خان، فضل الحق، نوین اور گرباز جیسے باصلاحیت اورغیرمعمولی کھلاڑی میسر ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp