پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ جج صاحبان جو خود دوسروں کو انصاف دیتے ہیں، اگر آج وہ خود انصاف کے طلبگار ہیں تو عوام کے حقوق کا تحفظ کیسے ہوگا۔
مزید پڑھیں
لاہور میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عوام باہر نکل کر جج صاحبان کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ پاکستان کی 25 کروڑ عوام اور وکلا ان کے شانہ بشانہ اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں گے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارا کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں، ہم صرف رول آف لا کی بات کرتے ہیں، یہ اسی وقت ممکن ہے جب عوام کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ آزاد ماحول میں آزادنہ طریقے سے فیصلے کرے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ججز کے گھروں اور واشرومز میں کیمرے لگے ہوں اور انہیں ڈرایا دھمکایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی خواتین ورکرز کو ایک بعد دوسرے کیس میں گرفتار کرنا، عدلیہ کے احکامات کو ہوا میں اڑا دینا بنیادی حقوق ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔
’عمران خان کیخلاف 203 جعلی مقدمات بنائے گئے‘
بیرسٹر گوہر خان نے کہا، ’عمران خان کے خلاف 203 مقدمات بنائے گئے، یہ سیاسی انتقام ہے اور یہ تمام مقدمات جعلی ہیں، اڈیالہ جیل میں ان کیسز میں 14، 14 گھنٹے ٹرائل ہورہا تھا، میں نے جج صاحب سے کہا کہ بریک کتنی دیر کی ہوگی تو جج صاحب نے کہا کہ اتنی ہی ہوگی کہ ہم نماز جمعہ پڑھ سکیں۔‘
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا انہی جج صاحبان نے 2 دن کے اندر دوران عدت نکاح کیس کا ٹرائل مکمل کرلیا تھا، ساڑھے 8 بجے شروع کیا، 11 بجے تک ٹرائل چلا، اگلے روز 9 بجے سماعت شروع کی اور 10، 10 منٹ کے وقفوں کے ساتھ رات پونے 12 بجے ٹرائل مکمل کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ججز بنیادی اصولوں کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے فیصلے کریں تو وہ انصاف نہیں بلکہ ناانصافی ہے، عمران خان سیاسی انتقام کی وجہ سے جیل میں ہیں، ہمارا ججز سے پرزور مطالبہ ہے کہ عمران خان کو جلد از جلد رہا کیا جائے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے خلاف بھی کوئی کیس نہیں، توشہ خانہ کے ریکارڈ میں بشریٰ بی بی کا کہیں نام نہیں ہے، ان کے نام کبھی کوئی گفٹ نہیں آیا اور نہ انہوں نے کبھی کوئی تحفہ قبول کیا، انہوں نے کسی گفٹ کے نہ پیسے دیے ہیں نہ لیے ہیں، انہوں نے کبھی ان گفٹس پر ٹیکس نہیں دیا تھا، کیبنیٹ ڈویژن، اسٹیٹ بینک سے آئے ریکارڈ اور الیکشن کمیشن دستاویزات میں بشریٰ بی بی کا نام نہیں تھا، صرف عمران خان کو پریشر میں لانے کے لیے یہ کیس بنایا گیا۔