سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2 ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے انتخابات کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کے اختلافی فیصلے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر کڑی تنقید کی ہے اور ان کے دور میں سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس اختیارات کے ذریعے انتظامی معاملات میں مداخلت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔
ججوں نے ایک پولیٹیکل سائنٹسٹ یاسر قریشی کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اقتباس نقل کیا ہے کہ جس طرح سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس کے اختیارات استعمال کیے تاریخ میں کبھی استعمال نہیں ہوئے۔
اقتباس میں طنزاً اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار کے عدالت کے اندر اور عدالت کے باہر ازخود نوٹس اختیارات کی آندھی سے انصاف کرنا ممکن نہیں کیونکہ انہوں نے سارے پاکستان کے معاشی اور سماجی مسائل کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔
دونوں ججوں نے کہا ہے کہ پانی کی شفافیت اور تقسیم سے لے کر دودھ کی پیداوار تک، اسپتالوں کے انتظامات سے لے کر تعلیمی میدان میں تفریق اور بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول سب عدالتی ہتھوڑے کی زد میں تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے فیصلے میں مذکورہ کتاب سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے سال 2018 کے صرف ابتدائی 3 مہینوں میں 30 ازخود نوٹس لیے جو کہ سب کے سب اخباری خبروں، ٹی وی خبرنامے کی شہ سرخیوں یا سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی کسی پوسٹ کی بنیاد پر لیے گئے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ایک کیس میں تو جسٹس ثاقب نثار نے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ایک ایسی تصویر پر نوٹس لیا جس میں ایک جنازے کو سیوریج کے پانی میں سے گزار کر لے جایا جا رہا تھا۔
فیصلے کے شروع میں دونوں ججوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات آئین اور قانون میں طے ہیں اور یہ کسی جج کی سہولت اور مرضی کے اعتبار سے طے نہیں ہو جاتے اور جب ایسا ہوتا ہے تو وہ ایک شاہی عدالت بن جاتی ہے۔