اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار ریم السالم نے کہا کہ خواتین پر بڑھتے ہوئے تشدد، جنسی استحصال اور بدسلوکی کا سبب جسم فروشی کو فروغ دینا ہے، اس نظام کے باعث خواتین اور لڑکیاں ترقی سے محروم اور غربت کا شکار ہو جاتی ہیں۔
ریم السالم نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جسم فروشی خواتین اور لڑکیوں کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے سے روکتی ہے، کیونکہ وہ محض اشیائے ضرورت کے حصول کی جدوجہد تک محدود ہوجاتی ہیں۔
’جسم فروشی تفریق و تشدد کے ایسے نظام کو دوام دیتی ہے جس سے ان کی مساوی حقوق کے حصول کی اہلیت کو نقصان پہنچتا ہے‘۔
مزید پڑھیں
ریم السالم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پدر شاہانہ رواج، معاشی عدم مساوات اور عالمگیریت جیسے عوامل جسم فروشی کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ بنیادی نوعیت کی عدم مساوات زیادہ تر خواتین اور لڑکیوں کو ہی نقصان پہنچاتی ہے اور اس پر قابو پایا جانا ضروری ہے۔
انہوں نے اپنی رپورٹ میں جسم فروشی کے ساتھ منسلک انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا خاص طور پر تذکرہ کیا ہے۔ ان میں جسمانی، نفسیاتی اور معاشی تشدد بھی شامل ہے۔
’جسم فروشی کا نتیجہ تشدد، غیرانسانی و توہین آمیز سلوک اور جنسی استحصال ہے، اس سے تحفظ، وقار، اچھی صحت، نقل و حرکت کی آزادی اور خاندان بنانے کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں‘۔
رپورٹ کے مطابق، جسم فروشی غربت کو جنسی و نسلی رنگ دیتی ہے اور خاص طور پر پسماندہ خواتین اس کا ہدف بنتی ہیں۔ ریم السالم نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کیا کہ اس عمل نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف منظم تشدد کو معمول کی چیز بنا دیا ہے۔
’اس سے باہمی رضامندی سے ہونے والے جنسی عمل اور جنسی تشدد کے مابین امتیاز بھی ماند پڑ گیا ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پورنوگرافی اور جسم فروشی کو معمولی سمجھنا ہی سب سے بڑا نقصان ہے، اس کی وجہ سے عجیب و غریب جنسی توقعات جنم لیتی ہیں۔
’خاص طور پر بہت سی لڑکیاں پورنوگرافی میں خواتین کو جنسی کھلونے کے طور پر دکھائے جانے سے پریشانی محسوس کرتی ہیں‘۔
انہوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس فعل کو جرم قرار دینے کے بجائے۔ ان لڑکیوں اور خواتین کو متاثرین سمجھیں، اور جنسی افعال کی خریداری، اسمگلنگ اور دلالی کو جرم قرار دیتے ہوئے سخت اقدامات کیے جائیں۔
واضح رہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں جسم فروشی اور اس سے جڑے محرکات کو حساس معاملہ قرار دیا، اور اس کی شکار متاثرہ خواتین کے حقوق کی وکالت اور نئی نسل کی خواتین کو اس فعل سے بچانے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا۔