خیبر پختونخوا میں سرکاری گوداموں میں پڑے پڑے ہزاروں ٹن گندم خراب ہو گئی اور اب کھانے کے قابل نہیں رہی۔
محکمہ خوراک کے ایک افسر نے گندم خراب ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ محکمے نے خراب گندم کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی تیار کر لی ہے۔
گندم کی خریداری کب ہوئی تھی؟
محکمہ خوراک کے افسر نے بتایا کہ خیبر پختونخوا نے مذکورہ گندم گزشتہ سال پاسکو سے خریدی تھی جو صوبے میں گندم کی مانگ اور ضرورت کے مطابق تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاسکو سے خریداری کے بعد وفاقی حکومت نے نجی سیکٹر کو باہر سے گندم درآمد کی اجازت دی تھی جس کے بعد مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں کمی آئی اور فلور (آٹا) مل مالکان نے سرکار کی بجائے اوپن مارکیٹ سے گندم کی خریداری کو ترجیح دی جس کی قیمت سرکاری گندم کی نسبت 2 ہزار روپے فی 100 کلو گرام کم تھی۔
افسر کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں 100 کلو گرام بوری کی قیمت 11 ہزار روپے سے زائد ہے جبکہ اس وقت اوپن میں 100 کلو گرام کی قیمت 9 ہزار روپے تک تھی۔
یوکرین کی گندم
تمام تر معاملات سے باخبر سرکاری افسر نے بتایا کہ مذکورہ گندم کی خریداری پاسکو کے ذریعے یوکرین سے 3 سال قبل کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ سال اوپن مارکیٹ میں قیمت کم ہونے سے صوبے میں سرکاری گندم فروخت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے وہ گوداموں میں پڑے پڑے خراب ہو گئی۔
افسر کا کہنا تھا کہ گوداموں میں پڑی گندم کی مناسب دیکھ بھال بھی نہیں ہوتی اور کیڑے لگنے کی صورت میں بروقت اقدامات بھی نہیں کیے جاتے۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کی گندم ہائبرڈ (گندم کی 2 اقسام کے پودوں کی کراس پیداوار) ہونے کی وجہ سے کمزور ہے اور اس کے خراب ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جبکہ مقامی گندم جلد خراب نہیں ہوتی۔
افسر نے بتایا کہ اس وقت صوبے کے مختلف اضلاع کے گوداموں میں 70 ہزار ٹن پرانی گندم ہے جس میں سے نصف سے زائد خراب ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ خوراک کے ضلعی حکام نے گندم خراب ہونے کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ دے دی ہے تاہم اس کی اب تک باقاعدہ تحقیقات نہیں ہوئی ہیں۔