وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا اور اس کے تحت اگرضرورت محسوس ہوئی تو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) کی سرحد پار پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔
مزید پڑھیں
جمعرات کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ آپریشن عدم استحکام میں کوئی جلد بازی نہیں کی گئی ہے، حالیہ دِنوں میں پاکستان کے اندر دہشتگردوں کی در اندازی میں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت سیاسی ماحول ایسا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کے لیے حکومت کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتیں اور وہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ہر حال میں اعتماد میں بھی لیں گے اور اس پر اتفاق رائے کے لیے اسمبلی میں بھی لے کرآئیں گے۔ اس حوالے سے ان کے تمام سوالات اور تحفظات کا جواب دیا جائے گا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام میں ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا کوئی امکان نہیں، ایسا کوئی وجہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔
ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی تجویز کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ وہ بتائیں کہ وہ مذاکرات کی صورت میں جن 4 یا 5 ہزار طالبان کو پاکستان میں لے آئے تھے اور ان کو یہاں بسایا ہے کیا ان سے ان کی کوئی توقعات پوری ہوئی ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اگر علی امین گنڈا پور کی طالبان کے ساتھ مذاکرات سے کوئی توقعات پوری ہوئی ہیں یا تجربہ کامیاب ہوا ہے تو پھر وہ ہمیں بھی بتائیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی کے کسی آپریشن میں کوئی ناکامی نہیں ہوئی، افواج پاکستان نے ان آپریشن کی صورت میں قربانیاں دیں لیکن ان آپریشن کے بعد سویلین حکومتوں نے جو کردار ادا کرنا تھا وہ کردار ادا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ آپریشن عزم استحکام پر بات چیت کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کے بعد کوئی اور آپریشن نہ کرنا پڑے، اس پر اتفاق رائے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی جا سکتی ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ اس آپریشن کا ایک مقصد معاشی مشکلات کو حل کرنا بھی ہے، کیوں کہ جب تک پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہو گا ہم معاشی استحکام بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب تک ملک سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی تو غیر ملکی سرمایہ کاری کیسے ملک میں آئے گی۔
ایک اور سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت سے بڑھ کرکوئی چیز نہیں ہے اگر تحریک طالبان پاکستان افغانستان کے اندر سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تو ان کا ایک حصہ جو 4 سے 5 ہزار پر مشتمل ہے جسے عمران خان حکومت ملک میں لائی تھی وہ بھی ہے یہاں پاکستان کے اندر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے اندر سے پاکستان کے اندر دہشتگرد آ رہے ہیں، اگر افغانستان کے اندر ان دہشتگردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کسی بھی طور پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
آپریشن عزم استحکام میں چین کی مدد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ یہ آپریشن ہمارا اپنا اندرونی معاملہ ہے اس میں ہمارے اپنے ذاتی مقاصد ہیں تاہم اس میں کامیابی پر ہمارے دوست ممالک کو بھی ضرور خوشی ہو گی، اس آپریشن کے لیے امریکا سے کسی قسم کی کوئی مدد حاصل نہیں کی جائے گی۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم بہترین سیکیورٹی فراہم کر سکیں تو چین کی اولین ترجیح یہی ہے کہ پاکستان کو معاشی طورپر مضبوط کیا جائے۔
عمران خان کے جیل سے باہر آنے سے متعلق سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ وہ جیل میں رہیں گے یا باہر آئیں گے اس کا فیصلہ عدلیہ کر سکتی ہے، میں بھی بغیر کسی وجہ کے کسی کو جیل میں رکھنے کے حق میں نہیں ہوں۔
ایک اور سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے غیر مشروط مذاکرات کی پیش کش عمران خان کے لیے بھی ہے، بلکہ وزیراعظم پاکستان نے تو خود عمران خان کو مخاطب کر کے مذاکرات کی بات کی ہے۔