پاکستان تحریک انصاف کی قیادت ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہوچکی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا حکمت عملی اپنائی جائے۔ کارکنان مایوسی کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کی نوید سنانے والے اس مایوسی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش رد کرکے زور ڈالا جارہا ہے کہ مذاکرات صرف مقتدرہ سے ہی ہوں گے۔ کارکنان کو پیغام دیا جارہا ہے کہ عمران خان ڈٹ کر کھڑا ہے اور کسی صورت نہیں جھکے گا۔ اور بار بار کہا جا رہا ہے کہ چور، ڈاکو اور فارم 47 کی پیداوار اس حکومت سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔
عمران خان کی رہائی کی جھوٹی خبریں دینے والے چاہتے ہیں کہ کارکنان نا امیدی اور مایوسی کا شکار نہ ہونے پائیں اور وہ آس رکھیں کہ بہت جلد عمران خان اقتدار میں واپس آئیں گے۔ بلکہ کچھ نے یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان جیل سے سیدھے وزیراعظم ہاؤس جائیں گے۔
جب رہائی کی امیدیں معدوم ہوتی ہیں تو قصوروار تحریک انصاف کی قیادت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ رہائی کی امیدیں دلانے والے لیڈرز اور یوٹیوبرز نے کارکنان کو عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ حال ہی میں سیاسی منظرنامے پر واپس آنے والے شیخ رشید نے عمران خان کی جلد رہائی کی خبریں دینے والوں کو بے وقوف قرار دے دیا۔
مزید پڑھیں
پارٹی کے اندرونی اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی کو عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ عدت کیس میں سزائیں معطل کرنے کی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد عدالت کے باہر کارکنان مشتعل ہوگئے اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب اور فیصل جاوید کو گھیرلیا اور دھمکیاں دیں کہ اگر عمران خان کو کچھ ہوا تو وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ کارکنان چاہتے تھے کہ فیصلے کے بعد پارٹی رہنما احتجاج اور دھرنے کا اعلان کریں۔ عمر ایوب پر یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ وہ کسی اور کے آلہ کار بنے ہوئے ہی۔ ایسے ہی الزامات بہت سے دیگر رہنماؤں پر بھی لگائے جا چکے ہیں۔
عمر ایوب نے فوری طور پر پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری بھی چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ اپنے استعفے میں انہوں نے بانی تحریک انصاف عمران خان سے کہا ہے کہ ان کی جگہ کسی اور کو سیکریٹری جنرل کے عہدے پر تعینات کیا جائے جو آئندہ الیکشن کے لیے پارٹی کو منظم کرسکے۔ انہوں نے پارٹی کے چئیرمین فنانس بورڈ کے عہدے سے بھی الگ ہونے کا عندیہ دے دیا۔
فواد چودھری کہتے ہیں کہ پارٹی کی موجودہ قیادت میں کسی رہنما میں پارٹی امور چلانے کی اہلیت نہیں اور الزام لگایا کہ یہ لوگ عمران خان کو جیل سے باہر نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ ہی اس قابل ہیں کہ وہ کارکنان کو متحرک کرسکیں۔
پارٹی کے دیگر رہنما بھی موجودہ قیادت سے خوش نہیں اور حال ہی میں خبریں آئیں کہ شاندانہ گلزار اور شہریار آفریدی سمیت چند رہنما قومی اسمبلی میں فارورڈ بلاک بنانے کا اعلان کرسکتے ہیں۔
اگرچہ پارٹی کے تمام بڑے فیصلے کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان خود کرتے ہیں اور پارٹی قیادت ہر ممکن کوشش کرتی رہی ہے کہ ان فیصلوں پر ہر ممکن حد تک عمل درآمد کیا جائے۔ مگر شاید زمینی حقائق کی وجہ سے وہ ان پر 100 فی صد عمل در آمد کرانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے اور ساری ذمہ داری انہی پر ڈال دی جاتی ہے۔
دوسری طرف عمران خان چاہتے ہیں کہ ان کے احکامات پر ہر ممکن عمل کیا جائے۔ فواد چودھری سمیت بعض رہنما قیادت کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے۔ تاہم سیاسی جماعتوں یا حکومت کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر فواد چودھری مختلف رائے رکھتے ہیں ان کے مطابق سیاستدانوں کو ’بڑے مقصد کے حصول کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے۔ پہلے اپوزیشن اکٹھی ہو پھر حکومتی جماعتوں سے بھی گفتگو ہوسکتی ہے‘۔
پارٹی قیادت میں اختلافات نے تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ ساتھ کارکنان کو تذبذب کا شکار کردیا ہے اور آہستہ آہستہ مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ پارٹی کارکنان حد سے زیادہ جذباتی ہیں۔ وہ عمران خان کے سوا پارٹی کے ہر دوسرے لیڈر پر شک کرنا شروع کردیتے ہیں اور انہیں کسی کا آلہ کار قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ چند مہینوں میں فواد چودھری، شیر افضل مروت سمیت بڑی تعداد میں رہنما ایسی صورت حال کا سامنا کرچکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کم وبیش تمام رہنما ہی مفاد پرست ہیں۔
اسی طرح مخصوص نشستوں سمیت چند فیصلوں پر کارکنان کے شدید تحفظات ہیں کہ اسی قیادت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور تمام ناکامیوں کے ذمہ دار یہ سیاستدان ہیں۔
مقتدرہ اور عمران خان کے درمیان اعصاب کی جنگ جاری ہے۔ ایسی کسی بھی صورتحال سے نکلنے کا واحد حل مذاکرات ہے۔ فواد چودھری سمیت سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے تمام افراد کا خیال ہے کہ ضد چھوڑ کرعمران خان کو مقتدرہ کی بجائے حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی طرف آنا چاہیے تاکہ ملک میں جاری سیاسی عدام استحکام ختم کیا جاسکے۔