آپریشن عزم استحکام کے اصل مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟

ہفتہ 29 جون 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آپریشن عزم استحکام کے اعلان کے بعد جس طرح بعض حلقوں کی جانب سے غیرضروری تشویش سامنے آئی اور ایک منفی پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی گئی، ایسے میں لازم ہوگیا تھا کہ واشگاف الفاظ میں واضح کردیا جائے کہ ’عزم استحکام‘ کے کیا مقاصد ہیں اور اس کے اہداف کیا ہیں۔

اس حوالے سے جاری میڈیا رپورٹ کے مطابق ’آپریشن عزم استحکام‘ سے غلط تاثر لیا گیا، اس لیے کہ ’عزم استحکام‘ کی چھتری تلے کوئی آپریشن ہوگا نہ ہی کسی کو بے گھر کیا جائے گا۔ عزم استحکام کے تحت دہشتگردی کی روک تھام کے لیے کثیرالجہتی پالیسی ترتیب دی جائے گی اور منشیات، اسمگلنگ کی روک تھام اور دہشتگردوں کو سزائیں دلوانے کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے گی۔

سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ دہشت گرد خوارج ہیں اور ان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ اسمگلنگ اور منشیات کا پیسہ دہشتگردی میں استعمال ہو رہا ہے، اس کی روک تھام ضروری ہے۔ عزم استحکام کے ذریعے اسمگلنگ اور منشیات کی بیخ کنی کی جائےگی، امن کے دیر پا قیام کے لیے مؤثر حکمت عملی ضروری ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے انسداد دہشتگردی کے لیے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی

رواں ماہ 22 جون کو وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں انسداد دہشتگردی کے لیے آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی تھی۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے علاوہ وفاقی کابینہ کے اہم وزرا بشمول نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر داخلہ سید محسن نقوی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے شرکت کی تھی۔

وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ آپریشن ’عزم استحکام‘ انتہا پسندی اور دہشتگردی کی لعنت کا مقابلہ کرنے کے لیے جامع اور فیصلہ کن انداز میں کوششوں اور متعدد اقدامات کو مربوط اور ہم آہنگ کرے گا۔‘

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں انسداد دہشتگردی کی جاری مہم اور داخلی سلامتی کی صورت حال کا بغور جائزہ لیا گیا اور دہشتگردی کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور یہ جنگ قوم کی بقا اور خوشحالی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اجلاس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کسی کو بھی بغیر کسی استثنا کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اعلامیے کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے ملٹی ڈومین اصولوں پر ہونے والی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا اور خاص طور پر اس پر عمل درآمد میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی گئی۔ انسداد دہشتگردی کی جامع اور ازسر نو حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس کی بنیاد مکمل قومی اتفاق رائے اور نظام کی ہم آہنگی پر رکھی جائے گی۔

یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ سیاسی اور سفارتی میدان میں علاقائی تعاون کے ذریعے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو محدود اور ختم کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں گی۔ مسلح افواج کی تجدید شدہ بھرپور کوششوں کو قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ دہشتگردی سے متعلق مقدمات کو تیز کرنے اور دہشتگردوں کو مثالی سزائیں دینے میں حائل قانونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے مؤثر قانون سازی بھی کی جائے گی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس میں با اختیار بنایا جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق آپریشن ’عزم استحکام‘کو سماجی و اقتصادی اقدامات سے بھی تقویت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا مقصد لوگوں کے حقیقی خدشات کو دور کرنا اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جو انتہا پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرے۔ آپریشن کی حمایت میں ایک متحدہ قومی بیانیے کو فروغ دینے کے لیے معلومات سے بھی فائدہ اٹھایا جائے گا۔ اجلاس میں پاکستان میں چینی شہریوں کی فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا تھا۔

اعلامیے کے مطابق وزیراعظم کی منظوری کے بعد متعلقہ محکموں کو نئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے گئے ہیں جس سے پاکستان میں چینی شہریوں کو جامع سیکیورٹی فراہم کرنے کے طریقہ کار میں اضافہ ہوگا۔

اپوزیشن کی جانب سے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت

پاکستان تحریک انصاف نے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ایوان سے منظور کرانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے بھی آپریشن کی مخالفت کی اور اسے آپریشن عدم استحکام کا نام دیا۔

قبائلی امن جرگے کی آپریشن عزم استحکام کی مخالفت

26 جون کو پشاور میں ہونے والے قبائلی امن جرگے نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کی تھی۔ جرگے میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سنی اتحاد کونسل کے حامد رضا، سربراہ محمود خان اچکزئی، بیرسٹر سیف اور دیگر نے شرکت کی تھی۔

جرگے نے اپنی قرارداد میں کہا تھا کہ قبائلی عوام کے ساتھ نقصانات کے ازالے کی مد میں کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں، جبکہ یہ جرگہ عزم استحکام آپریشن کی مکمل مخالفت کرتا ہے۔ حکومت آپریشن کا ارادہ رکھتی ہے تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے، اور تمام قبائلی رہنماؤں کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے۔

بڑے پیمانے پر کسی فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا، وزیراعظم

آپریشن کی مخالفت کے بعد وزیراعظم آفس نے عزم استحکام آپریشن کے حوالے سے وضاحت کی کہ بڑے پیمانے پر کسی فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہوگی اور عزمِ استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلی جنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں ’آپریشن عزم استحکام‘ کی حمایت میں قرارداد جمع

24 جون کو پنجاب اسمبلی میں ’آپریشن عزم استحکام‘ کی حمایت میں قرارداد جمع کرائی گئی تھی۔ قرارداد مسلم لیگ (ن) کی رکن حنا پرویز بٹ کی جانب سے جمع کروائی گئی تھی۔

قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ’آپریشن عزم استحکام‘کی منظوری کو خوش آئند قرار دیتا ہے۔ یہ ایوان آپریشن عزم استحکام کی مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتا ہے۔ ایوان آپریشن عزم استحکام کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے۔


قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ایوان افواج پاکستان، پولیس اور تمام سیکیورٹی اداروں کو بھی مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتا ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے وفاق سمیت تمام صوبائی حکومتوں کو متحد اور یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونا چاہیے۔

دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پوری قوم افواج پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ پرامن پاکستان خوشحال پاکستان کا ضامن ہے۔

آپریشن ’عزمِ استحکام‘ کے اہم نکات کیا ہیں؟

نیشنل اپیکس کمیٹی کا اجلاس 22 جون 2024 کو اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا۔ یہ 2016 کے بعد شاید سب سے یادگار اور تاریخی اجلاس تھا جس میں کئی اہم اور بڑے فیصلے کیے گئے تھے۔ ️اجلاس کے دوران آپریشن ’عزمِ استحکام‘ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

دہشتگردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی۔ دہشتگردوں سے نمٹتے وقت کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ پنجابی ہوں، بلوچی ہوں، سندھی ہوں، کشمیری ہوں، گلگتی ہوں یا پٹھان۔

اسی طرح ریاست مخالف انتشار پسندوں اور مذہبی جنونیوں کے خلاف آپریشن کیے جائیں گے، چاہے وہ کسی بھی فرقے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، خاص طور پر سیالکوٹ اور سوات جیسے واقعات سے سختی سے نمٹا جائے گا، جو اسلام اور پاکستان دونوں کے لیے شرمندگی کا باعث رہے ہیں۔

کوئی بھی شخص یا گروہ، جو ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا یا قانون کو ہاتھ میں لے گا، اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
اجلاس کی منفرد بات یہ تھی کہ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے موجود تھے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ ’گڈ طالبان صرف ڈیڈ طالبان ہیں۔‘

تمام جماعتوں نے اتفاق کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے ہے۔ اس کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں۔ پاکستان نے اس سے پہلے بھی بڑے آپریشن کیے ہیں اور دہشتگردوں کا صفایا کیا ہے، جب ہمارے شہروں میں دھماکے ہو رہے تھے۔ اب یہ لوگ ریاست کی سرحدوں اور کونوں تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ دہشت گرد وزیرستان اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اپنی بزدلانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس برائی کو ہمیشہ کے لیے ختم اور اکھاڑ پھینکا جائے۔

اجلاس کے شرکا نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دہشت گردی کے مسئلے کے علاوہ شہروں میں مذہبی جنونیت بڑھ رہی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے بھی اجلاس سے خطاب کیا، انہوں نے علامہ اقبال کے درج ذیل شعر سے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

آرمی چیف کی متاثر کن تقریر کا مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے، ہم پاکستانی اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر مل کر لڑیں گے۔ ہمیں ہر حال میں یہ جنگ جیتنی ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔

اگر ریاست ہے تو ہم ہیں، ریاست کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔ ہم نے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کی اور دہشتگردوں کی کمر توڑ دی اور اب ہم اس لعنت کو مکمل طور پر ختم کر دیں گے تاکہ یہ فتنہ دوبارہ نہ اٹھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp