ملک کے ایک سرکردہ مذہبی عالم نے 8 فروری 2024 کے انتخابات سے قبل فوج اور عمران خان کے درمیان صلح کرانے کی ناکام کوشش کی تھی۔
انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ کے مطابق اپریل 2022 میں حکومت سے باہر کیے جانے کے بعد فوج، اس کے اعلیٰ کمانڈروں اور حتیٰ کہ موجودہ اور سابق آرمی چیف کے خلاف عمران خان جو الزامات عائد کر رہے ہیں ان کے تناظر میں اب جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے لیے ساکھ کے بحران کا ایک سنگین چیلنج در پیش ہے۔ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ عمران خان ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سمیت لوگوں پر بغیر ثبوت سنگین نوعیت کے الزامات عائد نہیں کریں گے۔
مزید پڑھیں
گزشتہ 2 سال کے دوران عمران خان ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ جرنیلوں پر تنقید کی دوغلی پالیسی پر عمل پیرا رہے ہیں اور ساتھ ہی ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اُن کے مخالفین کی حکومت ہٹا کر اُن (عمران خان) کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کریں۔ 9 مئی کے حملوں اور 8 فروری کے انتخابات کے بعد بھی، عمران خان موجودہ آرمی چیف پر براہ راست تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تنقید کے ساتھ ہی وہ جنرل عاصم منیر اور ان کے ماتحت اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ فوج کے ترجمان نے 8 فروری کے انتخابات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کو واضح طور پر کہا کہ فوج پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔
ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی کے ساتھ کسی قسم کی بات چیت کا امکان ہے جس کا انہوں نے جواب دیا تھا کہ اگر کوئی سیاسی سوچ، رہنما یا گروہ اپنی ہی فوج پر تنقید کرتا ہے، فوج اور عوام کے درمیان خلیج پیدا کرتا ہے، قوم کے شہدا کی توہین کرتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے اور پروپیگنڈا کرتا ہے تو ان کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی۔
فوجی ترجمان نے مزید کہا تھا کہ ایسے انتشار پسندوں کے لیے واپسی کا ایک ہی راستہ ہے کہ پی ٹی آئی قوم کے سامنے دل سے معافی مانگے اور وعدہ کرے کہ وہ نفرت کی سیاست چھوڑ کر تعمیری سیاست اختیار کرے گی۔ بہر صورت ایسی بات چیت سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونی چاہیے۔ فوج کا اس میں شامل ہونا مناسب نہیں۔ موجودہ آرمی چیف کے تقرر کے بعد، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے پی ٹی آئی کے تمام روابط ختم ہوگئے تھے۔
عمران خان اور تحریک انصاف ڈاکٹر عارف علوی کے دور میں ایوان صدر کا استعمال کرتے ہوئے اور عمران خان کے ہمدرد ریٹائرڈ جرنیلوں کے ذریعے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی مایوس کن کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا تھا۔
پی ٹی آئی کے اندر کئی لوگ متفق ہیں کہ عمران خان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید اور اعلیٰ فوجی جرنیلوں پر الزامات عائد کرنے کی پالیسی سے پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس پالیسی نے پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے خواہشمند عمران خان کے لیے مسائل بڑھا دیے ہیں۔