وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ماضی میں کیے جانے والے فوجی آپریشنز کے بعد پاکستان کو یہ توقع نہیں تھی کہ ملک میں دہشتگردی پھر سر اُٹھائے گی۔ ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشتگردی کی نئی لہر کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن پر سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین سے مشاورت جاری رہے گی۔ امن و امان حکومت کی ذمہ داری بھی ہے اور یہ ذمہ داری لینی چاہیے، آپریشن ’عزمِ استحکام‘ فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ قبائلی عوام کی جانب سے نئے آپریشن پر تحفظات کی وجہ ان علاقوں کی پسماندگی اور سابق فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم ہوتے وقت کیے جانے والے وعدوں پر عملدرآمد نہ ہونا بھی ہے۔ ان کی ترقی کے لیے مختص رقم اور منصوبہ بندی میں کوتاہی کی گئی ہے، تاہم قبائلی عوام کا ایک بڑا حصہ آپریشن کے خلاف نہیں۔
سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز، خاص طور پر ان علاقوں کی سیاسی اور قبائلی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا؟ وزیر دفاع اس تاثر کو رد کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پہلی باقاعدہ بحث ایپکس کمیٹی میں ہوئی جہاں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، سینیئر بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ موجود تھے۔ سب کے نمائندے تھے، پھر کابینہ میں معاملہ آیا، وہاں بھی سب لوگ تھے۔ ایپکس کمیٹی کی میٹنگ میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کسی قسم کا اختلاف نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں مزید تفصیلات کا حصہ بنایا جائے تو وہ بھی راضی ہو جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مزید بات چیت کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دہشتگردی کی حالیہ لہر سے نمٹنے کے لیے نئے جذبے اور شدت کے ساتھ آپریشن کی ضرورت ہے۔ دہشتگردی کے واقعات میں گذشتہ ایک برس میں جو شدت آئی اس کے بعد نئی صف آرائی کی ضرورت تھی۔ کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جو بڑھتی دہشتگردی کا باعث بنے۔ جن میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کا انخلا اور پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے دوران ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ملک واپس لانا شامل ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہمیں امید تھی کہ افغان حکومت ہم سے تعاون کرے گی مگر وہ طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آئے کیونکہ وہ ان کے اتحادی تھے۔ ہم نے کہا کہ کوئی تو حل نکالیں۔ ان کی مغربی سرحد کی طرف نقل مکانی کرانے پر بھی بات ہوئی اور قریباً دس ارب روپے دینے کو تیار تھے۔ مگر خدشہ تھا کہ یہ وہاں سے بھی واپس آ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان سے بات چیت کے بعد ان کے 4 سے 5 ہزار لوگوں کو واپس لانے کا تجربہ ناکام ہوا اور طالبان کے وہ ساتھی جو افغانستان سے کارروائیاں کر رہے تھے انہیں پاکستان میں پناہ گاہیں مل گئیں۔ اب وہ آتے ہیں، ان کے گھروں میں رہتے ہیں اور پھر کارروائیاں کرتے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ چین کی طرف پاکستان پر یہ آپریشن شروع کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں۔ ان کا یہ دباؤ ضرور ہے کہ وہ یہاں اپنی سرمایہ کاری دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں، سی پیک 2 کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے سیکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں۔ انہیں اچھا لگے گا کہ پورا پاکستان محفوظ ہو، مگر فی الحال وہ چاہتے ہیں کہ جہاں جہاں ان کے لوگ ہیں، اور ان کا کام ہے، وہ محفوظ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ چینیوں کے خلاف تھریٹ پر بھی کام ہوگا مگر اس فوجی آپریشن کا مقصد عام پاکستانی شہریوں کو تحفظ دینا ہے۔ چین کے پاکستان میں سی پیک منصوبے سے جڑے حملوں میں بلوچستان سے علیحدگی پسند تحریکوں اور عسکریت پسند تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔
وزیر دفاع نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔ انہوں نے افغانستان کی سرحدی حدود کے اندر پاکستان کی جانب سے کی گئی فوجی کارروائیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بالکل ہم نے ان کی سرحد کے اندر کارروائیاں کی ہیں کیونکہ ان کی سرزمین سے لوگ آ کر یہاں پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں، تو ہم نے انہیں کیک، پیسٹری تو نہیں کھلانی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلح کارروائیوں میں حملہ آوروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور پاکستان مستقبل میں بھی یہ عمل جاری رکھے گا۔ اس سوال پر کہ عالمی سرحدی قوانین کے مطابق کیا پاکستان افغان حکومت کو ایسی کسی بھی کارروائی سے پہلے اطلاع دیتا ہے؟ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کیا جاتا، کیونکہ اس سے سرپرائز کا عنصر ختم ہو جائے گا، ہم انہیں یہ نہیں بتا سکتے کہ ہم آ رہے ہیں، آپ تیاری کرلیں۔