پہلا منظر: رات بھر ہونے والی برف باری نے وادی کو سفید چادر میں چھپا دیا تھا۔ ٹھنڈ کی شدت مزید بڑھ چکی تھی، چوں کہ اسکول کی سرمائی تعطیلات میں ابھی کچھ دن باقی تھے، لہٰذا اسکول کُھلا تھا اور تدریس کا عمل معمول کے مطابق جاری تھا۔ تاہم آج اس معمول کے عمل میں ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔
دور و نزدیک سے آنے والے اساتذہ و طلبہ سبھی قریب ڈیڑھ فٹ تک پڑنے والی اس برف سے گزر کر اسکول پہنچے تھے، مگر ایک طالب علم ایسا بھی تھا جو رگوں میں لہو جما دینے والی اس سردی میں برف پر برہنہ پا چلتا ہوا اسکول آیا تھا۔ نتیجتاً اس کے پاؤں سوج چکے تھے، اور وہ اپنے ہم جماعتوں کو یہ جھوٹی کہانی سنا رہا تھا کہ ’پاؤں میں تکلیف ہی کچھ ایسی تھی کہ جوتا پہننا ننگے پاؤں آنے سے زیادہ تکلیف دہ تھا‘۔
دوسرا منظر: آج ٹیچر نے اُسے بھری جماعت کے سامنے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر فیس جمع نہیں کروا سکتے تو کل سے اسکول آنے کی ضرورت نہیں۔ مگر شاید ٹیچر کو علم نہیں تھا کہ جس گھر میں نانِ شبینہ کے لالے پڑے ہوں وہاں فیس خواب و خیال بن جاتی ہے۔ وہ تو پڑھنے اور آگے بڑھنے کا شوقِ بے پناہ تھا جو اس طالب علم کو کشاں کشاں اسکول لے آیا تھا۔
تیسرا منظر: فوج سے سپاہی ریٹائرڈ ہونے والے محمد گلزار خان کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا ڈاکٹر بنے، جب کہ بیٹے کے سر میں صحافی بننے کا سودا سمایا ہوا تھا۔ یہ شوق اس حد تک تھا کہ وہ گھر کی سلیب پر بچھی پرانی اخباروں تک کو ایک سے زیادہ بار پڑھ چکا تھا۔ مگر ڈاکٹر بنانے اور صحافی بننے کے شوق کے درمیان دیوار افلاس حائل تھی، جس نے کسی بھی امید اور امکان کو معدوم کر دیا تھا۔ پھر جو کہتے ہیں ناں کہ ’مرے کو مارے شاہ مدار‘ تو یہی کچھ محمد گلزار خان کے ساتھ ہوا اور ایک تنازعے نے اسے پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیا۔ سربراہ خاندان کی عدم موجودگی میں اس کثیر الاعیال خاندان کے لیے اُن کا اپنا گھر اذیت کدہ بن گیا۔
چوتھا منظر: گاؤں کے سرکاری کالج سے جوں توں انٹر پری میڈیکل میں پاس کیا تو باپ نے بھی جیسے تیسے بیٹے کا داخلہ راولپنڈی کے پوسٹ گریجویٹ کالج میں کروا دیا۔ مگر جس کی زندگی کے سارے موسم گاؤں میں بیتے ہوں اس کے لیے پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ایک الگ ہی دنیا تھا۔ یہاں اس نوجوان کے لیے سڑک پار کرنا بھی کسی معرکے سے کم نہیں تھا۔ ایک روز جب کہ وہ کالج سے لیٹ ہو رہا تھا سڑک عبور کرنے کی کوشش میں بس کی زد میں آگیا۔ ٹانگ ٹوٹ گئی، اور اس کے ساتھ ہی بوڑھے اور مفلس باپ کے خواب بھی ٹوٹ گئے۔ وہ جس بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کا آرزو مند تھا اب وہی بیٹا سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر پڑا تھا۔ مسلسل غیر حاضری پر کالج سے نام خارج کر دیا گیا۔ اب کالج انتظامیہ کو کون بتاتا کہ وہ جو زندگی میں کچھ کر دکھانے کے عزم کے ساتھ اس شہر نا پُرساں میں آیا تھا وہ اپنی ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ ہسپتال کے بیڈ پر پڑا ہے۔
پانچواں منظر: راولپنڈی کا وہی کالج اور وہی طالب علم ہے جس کا نام چند ماہ قبل اس کالج سے خارج کر دیا گیا تھا۔ نوجوان نے کہنے کو تو ایک بار پھر داخلہ لے لیا تھا مگر اس بار اسے کالج خود ہی چھوڑنا پڑا،نہیں چھوڑتا تو کالج انتظامیہ معذرت کر لیتی کہ آخر وہ بنا فیس کے کب تک پڑھاتی۔
بھائی چھوٹا تھا اور شاید زیادہ حقیقت پسند بھی، اس لیے اس نے نہ ڈاکٹر بننے کے سپنے دیکھے اور نہ ہی اسے صحافی بننے کا شوق چرایا، وہ راولپنڈی مزدوری کرنے چلا آیا۔ چھوٹے نے بڑے بھائی کو یوں پریشان دیکھا تو اپنا مقدور بھر تعاون پیش کر دیا کہ ’یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر‘۔
چھٹا منظر: یہ ایک میڈیا ہاؤس ہے جہاں آج خبروں کی گرم بازاری کے درمیان گاہے ’مبارکباد‘ کی صدائیں اور ’ویلڈن‘ کا آوازہ بلند ہو رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک آفس بوائے نے آج پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں پرائیویٹ بی اے کر لیا ہے۔ کالج چھوڑنے سے پرائیویٹ گریجویشن کرنے تک، اس کٹھن اور کٹھور سفر میں پہلا پڑاؤ دیہاڑی پر مزدوری ، دوسرا ٹھہراؤ سبزی منڈی میں ٹھیہ اور تیسرا سنگِ میل پکوڑوں کا اسٹال تھا۔ کہاوت ہے کہ ’اللہ شَکر خورے کو شَکر دے دیتا ہے‘، سو یہی کچھ اس نوجوان کے ساتھ ہوا اور وہ شوق صحافت میں ایک معروف میڈیا ہاؤس میں ’آفس بوائے‘ لگنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس سارے سفر میں اس نے مطالعے کو ترک نہیں کیا، اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پھر انٹرنیٹ جیسا کچھ جہاں سے میسر آیا خبروں اور تجزیوں میں دل لگایا، یہاں تک کہ پاکستان کے صفِ اول کے اینکرز میں سے ایک ’طلعت حسین‘ کو جب اس ’آفس بوائے‘ کی سرگزشت کا علم ہوا تو انہوں نے ’عین الیقین‘ کے لیے جرنلزم میں گریجویشن کی ڈگری منگوا کر دیکھی اور ساتھ ہی فرمان جاری کر دیا کہ ’آج سے تم آفس بوائے کا کام نہیں کرو گے اور ٹیکنیکل کام سیکھو گے‘۔
ساتواں منظر: یہ پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا ہاؤس ہے۔ اور معروف صحافی طلعت حسین اس میڈیا ہاؤس سے اپنا شو کرتے ہیں۔ اس شو میں طلعت حسین کے ساتھ جو ریسرچ ٹیم وابستہ ہے اس کا ایک رکن وہ نوجوان بھی ہے، جو کل تک ایک دوسرے میڈیا ہاؤس میں ’آفس بوائے‘ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا تھا۔
جس وقت پاکستان میں تبدیلی کی ہَوا چلی اور میڈیا ہاؤسز کو مینج کرنے کا عمل شروع ہوا، تب جو صحافی زیر عتاب آئے ان میں طلعت حسین بھی شامل تھے۔ ان کا پروگرام بند ہوا تو ان سے وابستہ ٹیم بھی فارغ کر دی گئی۔
آٹھواں منظر: بیروزگاری کا زمانہ ہے، ارادے خود ہی بن اور ٹوٹ رہے ہیں۔ کبھی نوکری نہیں ملتی اور کبھی نوکری ملتی ہے تو تنخواہ نہیں ملتی۔ کہیں کسی کلینک پر کمپاؤڈری ہو رہی تو کہیں اکاؤنٹنٹ بن بیٹھے ہیں۔ جب کچھ نہ بن پڑا تو ’بائیکیا‘ چلانا شروع کردی۔ مگر وہ جو صحافت کا شوق تھا وہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔انہیں ڈوبتے ڈولتے حالات کے درمیان ایک روز اس نوجوان کو ’میڈم شنیلہ‘ کا خیال آیا، جن کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے گزرے دنوں میں اس نوجوان کا حوصلہ بڑھایا تھا۔
خیال کے عمل بننے میں چند لمحے لگے اور بائیکیا سوار جوان نے بائیک سڑک کنارے لگائی اور فون گھما دیا۔ ’میڈم کسی میڈیا ہاؤس میں کوئی چھوٹی موٹی اسامی ہو تو رہنمائی فرمائیں‘۔
آخری منظر: آج پاکستان کے تمام نیوز چینلز پر ایک ہی بات موضوع سخن ہے اور وہ نون لیگی رہنما محترمہ مریم نواز کا مطالبہ ہے کہ ’جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کیا جائے‘۔
مریم نواز نے یہ بات جس پلیٹ فارم پر کہی ہے وہ کسی صفِ اول کے نیوز چینل کا پلیٹ فارم نہیں ہے، وہ کسی بڑے اخبار سے خصوصی بات چیت بھی نہیں ہے، یہ نہ کسی عوامی جلسے میں کہی گئی بات ہے اور نہ ہی کسی پارٹی اجلاس میں کیا گیا مطالبہ ہے۔ بلکہ یہ بات انہوں نے ایک ایسے ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم پر کہی ہے جس نے اپنی لانچ کے پہلے ہی روز اس انٹرویو کے ساتھ پاکستانی صحافتی دنیا میں اپنا اعتبار قائم کر دیا ہے۔
مریم نواز کا تہلکہ خیز انٹرویو نشر کرنے والا یہ ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم ’وی نیوز‘ ہے۔ اس نوخیز ادارے کی نیوز ڈیسک کی ٹیم میں جو صحافی شامل ہیں ان میں ایک وہ نوجوان بھی ہے جو کبھی برف پر برہنہ پا چلتا ہوا اسکول پہنچا تھا۔ یہ وہی طالب علم ہے جس کو فیس کی عدم ادائیگی پر ہم جماعتوں کے سامنے بے عزتی سہنا پڑی تھی۔ یہ وہی لڑکا ہے جس کا نام کالج سے خارج کردیا گیا تھا۔ یہ وہی نوجوان ہے جو آفس بوائے بننے سے پہلے ایک دیہاڑی دار مزدور تھا، یہ وہی ہے جو کبھی آفس بوائے اور کبھی بائیکیا سوار تھا۔ یہ وہی ہے جس نے کبھی پکوڑے تو کبھی سبزی فروشی کا پیشہ اختیار کیا کہ ’روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر‘۔ اور آج یہ نوجوان ’وی نیوز‘ کی ٹیم میں بحیثیت ’ڈیسک ایڈیٹر‘ خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کا شوقِ صحافت منزل مراد پا چکا ہے۔ اس کے ہمکار اسے ’نثار خان‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
شکریہ طلعت حسین صاحب، شکریہ میڈم شنیلہ عمار اور شکریہ ’وی نیوز‘۔ میں محمد نثار خان ہوں اور یہ میری کہانی ہے۔ کہنے والے نے شاید مجھ جیسوں ہی کے بارے میں کہا ہے:
آغاز کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا