سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ 2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں کیسے الاٹ ہوئیں؟ فارمولا اور دستاویزات کل پیش کیے جائیں، کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے مخصوص نشستوں پر کیس کی سماعت کی۔ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہِ راست دکھائی گئی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں 30 منٹ میں دلائل ختم کردوں گا اور صرف 4 نکات پر بات کروں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 چیرمین پی ٹی آئی گوہر علی خان نے دستخط کیے ہیں۔ جب پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 جاری ہوئے تو تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے تھے۔
کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ بالکل اڑا دے گی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم باریکیوں میں چلے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن خود مختار آئینی ادارہ ہے، اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک کیس نہیں آئےگا ہم نظرثانی نہیں کرسکتے۔ ہر انتخابات میں ایک ہی بات ہوتی ہے، کسی نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والا کہتا ہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے۔ کوئی غیر آئینی کام ہوا ہے تو سپریم کورٹ بالکل اڑا دےگی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف صاحب کہہ رہے الیکشن کمیشن اتنا زبردست ادارہ ہے، اگر الیکشن کمیشن کسی سیاسی جماعت کو فیصلے کی غلط تشریح کرکے نااہل کردے تو اصل سوال یہ ہے جس کو دیکھنا چاہیے۔
حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے، چیف جسٹس
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ عدالت چاہتی جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے اسے ملے، کسی کو کم زیادہ سیٹیں نہ چلی جائیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ حق کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزاد امیدوار بنا دے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزاد امیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزادامیدوار آیا؟ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کہتی آزاد امیدوار سنی اتحاد میں شامل ہونا چاہتے جس کے بعد سنی اتحاد مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی اہل ہے۔
کمزور ججز کو بھی ساتھ لے کر چلیں ناں، جسٹس منصور علی شاہ کے جملے پر قہقہے
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کاش میرا چیف جسٹس جیسا دماغ ہوتا، پڑھتے ہی سب کچھ سمجھ جاتا لیکن میں عام آدمی ہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین لوگوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، وکلا اور ججز کے لیے آئین نہیں بنائے جاتے، آئین لوگوں کی پراپرٹی ہے، آئین ایسے بنایا جاتا تاکہ میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمزور ججز کو بھی ساتھ لے کر چلیں ناں، اس جملے پر عدالت میں قہقہے گونجے۔
اگر الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہ کرتی تو تنازع نہ ہوتا، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل منصور اعوان سے سوالات کیے کہ کیا 2002 سے ایک ہی فارمولا استعمال ہو رہا ہے؟ کیا مستقل مزاجی سے ایک ہی فارمولا استعمال ہو رہا ہے؟ الیکشن کمیشن کب سے فارمولا استعمال کر رہا ہے؟ کیا قانون کے بدلنے کے بعد فارمولا تبدیل نہیں ہوا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنے کے بعد تنازع شروع ہوا، اگر الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر نہ کرتی تو تنازع نہ ہوتا۔
سیاسی جماعت ہی ووٹ حاصل کرکے مخصوص نشستوں کے لیے اہل ہوتی ہیں،اٹارنی جنرل منصوراعوان
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 51 اشارہ کرتا ہےکہ مخصوص نشستوں کا مطلب خواتین کو با اختیار بنانا ہے۔ 2002 میں پہلی مرتبہ خواتین کو قومی، صوبائی، اور سینیٹ میں نمایندگی ملی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد 60 مخصوص نشستوں کا مطلب نمایندگی کو بڑھانا ہے۔ آرٹیکل 51 کا مطلب خواتین کے ساتھ غیر مسلموں کو بھی اسمبلیوں میں نمائندگی دینا ہے۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے سپریم کورٹ کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا۔ سیاسی جماعت ہی ووٹ حاصل کرکے مخصوص نشستوں کے لیے اہل ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں کی نشستیں جنرل انتخابات اور پھر مخصوص نشستوں سے مکمل کی جاتی ہیں۔ اسمبلیوں میں نشستوں کو مکمل کرنا ضروری ہے۔ آئین کا مقصد خواتین اور غیر مسلموں کو نمائندگی دینا ہے۔ اگر اسمبلی میں نشستیں مکمل نہیں ہوں گی تو آئین کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ فارمولا سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی جنرل سیٹیں ایک مخصوص نشست حاصل کرنے کے لیے چاہیے ہوں گی۔ جسٹس محمدعلی مظہر نے اٹارنی جنرل منصور اعوان کو ہدایت کی کہ پارٹی کے مطابق مخصوص نشستوں کا فارمولا بتائیں؟ اس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بلوچستان اسمبلی کی مثال دے کر فارمولا سپریم کورٹ کے سامنے رکھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا سے مکالمہ ’مجھے آپ کی سمجھ نہیں آئی؟‘
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا روسٹرم پر آئے اور انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے جمع کروائے۔ ان کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل کے دلائل اڈاپٹ کر رہا ہوں، الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے کہ خیبر پختونخوا کے انتخابات سے مطمئن نہیں؟ پورے پاکستان کی بات نہ کریں خیبر پختونخوا کی بات کریں۔ بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان کی پارٹی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پوری بات کریں نا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتے، آپ کہہ رہے بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی اور مخصوص نشستیں مل گئیں۔ کیا آپ نے 2018 میں چیلنج کیا؟ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے جواب دیا کہ میں صرف ریکارڈ جمع کروا رہا ہوں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 2018 میں بھی تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوئے، جواب دیں؟ جو سیٹیں تب ملیں ٹھیک ملیں یا نہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے انتخابات کے وقت الیکشن کمیشن کا الگ فارمولا تھا، اب کیوں الگ فارمولا ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا سے مکالمہ کیا کہ مجھے آپ کی سمجھ نہیں آئی؟
پنجاب، وفاق، بلوچستان کے وکلا نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اڈاپٹ کرلیے۔ عدالت نے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا۔
چیف جسٹس نے وکیل کو کالا کوٹ پہننے سے منع کر دیا
مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران وکیل مولوی اقبال حیدر عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ کہ انہوں نے 8 فروری انتخابات سے متعلق درخواست دائر کر رکھی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ امیدوار ہیں؟ مولوی اقبال حیدر نے جواب دیا کہ نہیں، میری انتخابات سے متعلق درخواست ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے پوچھا آپ امیدوار ہیں یا آپ نے انتخابات میں حصہ لیا تھا؟ مولوی اقبال حیدر نے نفی میں جواب دیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، کالا کوٹ پہن کر مت آئیں۔
الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا نہیں، گوہر علی خان
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں تو کیا وہ انتخابات میں سیٹیں جیتی تھیں؟ کوئی ایسا قانون ہے کہ ایک صوبے میں سیٹیں جیتی ہوں تو دوسرے صوبے میں میں نہیں مل سکتیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہر انتخابات الگ ہوتے ہیں، اگر کہا جائے کہ 8 فروری کو 5 انتخابات ہوئے تو کیا درست ہے؟ وفاق اور صوبائی انتخابات الگ الگ ہوتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل مکمل کیے تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا بیرسٹر گوہرعلی خان موجود ہیں؟ اس پر گوہر علی خان روسٹرم پر آگئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے پوچھا کہ آپ سے پہلی سماعت پر پوچھا تھا کیا پی ٹی آئی کے ڈیکلریشن، سرٹیفیکیٹ جمع کروائے گئے ہیں تو آپ نے ہاں کہا تھا، لیکن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چند کاغذات نامزدگی میں جمع ہیں چند میں نہیں، آپ کا کون سا بیان درست ہے؟
گوہرعلی خان نے بتایا کہ ہر امیدوار دو، 2 فارم جمع کروا سکتا ہے، آزاد امیدوار اور تحریک انصاف کے جمع کروائے، الیکشن کمیشن ایک فارم لایا، تحریک انصاف کے فارم بھی منگوائیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انتخابات تو ایک پر لڑنا ہے، 2 کیسے لکھ لیے آپ نے؟ گوہر علی خان نے کہا کہ ایک حلقے کے لیے 4 کاغذات نامزدگی جمع ہوتے ہیں، کوورنگ امیدوار بھی ہوتا، الگ الگ پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے۔ 22 دسمبر 4 بجے سرٹیفیکیٹ پہنچا دیےتھے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ رات 9 بجے آیا تھا۔
گوہرعلی خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا نہیں۔ جے یو آئی ف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے دلائل اڈاپٹ کرتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کو لگتا ہے الیکشن کمیشن نے ٹھیک کام کیا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا آپ کی پارٹی میں غیر مسلموں کو نہیں لیا جاتا؟اس پر بتایا گیا کہ ہمارے منشور میں ایسا کچھ نہیں، مِس پرنٹ تھا جس سے مِس انڈرسٹینڈنگ ہوئی۔
کنول شوزب کی درخواست پر سماعت نہیں ہونی چاہیے، وہ فیصلے سے متاثر نہیں ہوئیں، الیکشن کمیشن
وکیل سکندر بشیر کا پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کا صحیح نام لینے میں دشواری پیش آئی تو انہوں نے کہا کہ میری اردو کچھ کمزور ہے، صاحبزادہ کو شہزادہ کہہ دیتا ہوں۔ کنول شوزب کی درخواست پر سماعت نہیں ہونی چاہیے، وہ فیصلے سے متاثر نہیں ہوئیں، کنول شوزب تحریک انصاف میں ہیں، خواتین ورکرز ونگ کی سربراہ ہیں۔ 4 لوگ ممبر قومی اسمبلی بطور آزاد امیدوار منتخب ہوئے لیکن سنی اتحاد کونسل سے ضم نہیں ہوئے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 6 امیدواروں نے پی ٹی آئی کا سرٹیفیکیٹ دیا لیکن آزاد امیدوار کیسے قرار پائے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ امیدواروں میں الیکشن کمیشن کے مطابق کتنے امیدواروں کا سرٹیفیکیٹ، ڈیکلریشن منظور ہوا؟ سکندر بشیر نے بتایا کہ سب آزاد امیدوار ہی رہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدواروں کے پاس اختیار ہے کہ 3 روز میں کسی جماعت سے منسلک ہو جائیں، سب معاملہ حل ہوجائے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے درخواست میں کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے مخصوص نشستوں کی لسٹ جمع نہیں کروائی لیکن انہیں نشستیں دی گئیں، الیکشن کمیشن نے کیا اس ریکارڈ پر کوئی میٹنگ رکھی؟ ریکارڈ کو پرکھا؟
سکندر بشیر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا ایسا کوئی فیصلہ موجود نہیں، موجودہ کیس میں تو مکمل سماعت ہوئی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کو کم سے کم گزشتہ انتخابات کو تحریر کرنا چاہیے تھا، ابھی پوزیشن کچھ اور ہے، اس سے قبل کچھ اور تھی۔ آپ نے تو بلوچستان عوامی پارٹی پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔
تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، چیف جسٹس
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر تحریک انصاف ایسی کرتی تو الیکشن کمیشن کا اپنا شیڈول متاثر ہوجاتا؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارجس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی برس قبل سے آ رہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں، الیکشن کمیشن پہلے دیکھ سکتا تھا، فٹبال کی طرح ایکسٹرا ٹائم کو دیکھ رہے ہیں، اصل گیم 90 منٹ کی ہوتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال تھا کہ انتخابات جائز ہوئے یا نہیں، 22 دسمبر کو جب نشان لے لیا تو مطلب انتخابات کے لیے پارٹی ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تسلیم شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکے۔ بطور وزیر اعظم درخواست دی کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے سال دے دو۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ امیدوار علی محمد خان نے سرٹیفیکیٹ نہ ہی ڈیکلریشن میں کچھ لکھا، ایسے بے شمار کاغذات نامزدگی ہیں جو بلینک ہیں۔
حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفیکیٹ جمع کروانا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ یعنی الیکشن کمیشن کی تاریخ سے قبل پارٹی سے ڈیکلریشن دینی چاہیے، نشان بعد کی بات ہے۔ سکندر بشیر نے بتایا کہ حامد رضا کا ہر دستاویز ان کے پچھلے دستاویز سے مختلف ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفیکیٹ دینا چاہیے تھا یا آزاد امیدوار کا؟ سکندر بشیر نے جواب دیا کہ حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفیکیٹ جمع کروانا چاہیے تھا۔
مزید پڑھیں
جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ ڈیکلریشن میں تو حامد رضا نے خود کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا نہ کہ آزاد امیدوار؟ سکندر بشیر نے دلیل دی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 دسمبر، پشاور ہائیکورٹ کا 10 جنوری کو جبکہ 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا۔ 8 فروری کو تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر 7 فروری کو بھی تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کا بتا دیتی تو کچھ ہوسکتا تھا۔
حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا، الیکشن کمیشن
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کہہ رہے کہ سرٹیفیکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوا تھا؟ سکندر بشیر نے کہا کہ سرٹیفیکیٹ جمع کرواتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں۔ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔ حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا اور بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے۔ حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی 13 جنوری کو جمع کروائی۔
کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، الیکشن کمیشن
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟ وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے۔ پی ٹی آئی نے فارم 66، 22 دسمبر جبکہ پارٹی سے وابستگی کے سرٹیفیکیٹ 13 جنوری کو جاری کیے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی کے سرٹیفیکیٹ کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہیں تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفیکیٹ منسلک ہیں؟ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا جو پہلے آیا، اس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا۔