دریا سندھ پر انیس سو بتیس میں لائیڈز بیراج کی تعمیر سے پہلے صوبے کے صرف دس فیصد رقبے پر بارانی کاشت ہوتی تھی یا پھر دورِ انگلشیہ سے قبل کلہوڑہ اور تالپور دور میں تعمیر کی گئی اکا دکا نہروں کے آس پاس کی زمین کاشت ہو جاتی تھی یا پھر جب سیلاب گزر جاتا تھا تو کچے کی زمین پر فصلیں اگا لی جاتی تھیں مگر لائیڈز بیراج نے نکالی گئی سات نہروں (رائس ، دادو ، کیرتھر، نارا، روہڑی، خیرپور شرقی و غربی) نے سندھ کی زرعی قسمت بدل دی۔
سندھ کے اسی فیصد کھیتوں کو سینچنے والے لائیڈز بیراج سے گزرنے والے پانی کا بہاؤ کنٹرول کرنے کے لیے چھیاسٹھ گیٹ تعمیر کیے گئے مگر دریائی مٹی کی غیر معمولی مقدار کے سبب دس گیٹ بند کرنا پڑ گئے۔ یوں اس بیراج سے گزرنے والے پانی کی گنجائش کم ہو کر نو لاکھ کیوسک فٹ رہ گئی مگر ڈھانچہ اتنا مضبوط تھا کہ اس کے پچپن دروازے پندرہ لاکھ کیوسک تک کے سپر فلڈز بھی سہار گئے ۔
میں نے بچپن میں یہ روایت سنی کہ جس معمار نے یہ بیراج ڈیزائن کیا تھا، اس نے اس کی تکمیل کے بعد چابی اپنے پاس رکھ لی۔ انگریزوں نے جب چابی مانگی تو اس نے انکار کر دیا۔جب انگریزوں نے دھینگا مشتی کی تو معمار نے چابی دریا میں پھینک دی جو آج تک نہیں ملی۔ شاید اسی ’جراتِ معمارانہ‘ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’اور تیرے سکھر والے پل تے ہو جمالو‘ گیت تخلیق ہوا ۔
مگر جس نے بھی یہ داستان بنائی وہ ایک معمولی سی بات بھول گیا کہ (لائیڈز بیراج) سکھر بیراج انگریز انجنیرز نے ہی دیسی افرادی قوت کے ساتھ تعمیر کیا تھا۔ان کے نام کوئی نہیں جانتا مگر گیت آج بھی زندہ ہے۔
البتہ ہر تعمیر کی ایک عمر ہوتی ہے۔ پاکستان کے سب سے پرانے لائیڈز بیراج کی عمر ماشااللہ بانوے برس ہو چکی ہے۔ ماہرِ آبیات نصیر میمن کے مطابق اس بیراج نے اپنے بڑھاپے کی پہلی اطلاع دسمبر انیس سو بیاسی میں دی تھی جب گیٹ نمبر اکتیس اپنی جگہ سے اکھڑ گیا۔ چونکہ سردیوں میں پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے لہذا آبپاشی کے انجینرز نے پاک بحریہ اور شپ یارڈ کی مدد سے دو ہفتے کے اندر نیا گیٹ نصب کر دیا۔
مگر اسے کسی نے بھی لائیڈز بیراج کی چیخ نہیں سمجھا اور اتفاقی واقعہ سمجھ کے نظرانداز کر دیا۔اس کے بعد اس بیراج سے کئی سیلاب گزر گئے اور کچھ نہیں ہوا۔بیراجوں کی دیکھ بھال اور چھوٹی موٹی مرمت کے بجٹ منظور ہوتے رہے اور انہیں کاغذوں میں خرچ ہوتا بھی دکھایا جاتا رہا۔
لائیڈز بیراج اگلے بیالیس برس تک یہ تماشا دیکھتا رہا مگر اس بار بیس جون کو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور گیٹ نمبر سینتالیس اور چوالیس نے دریا میں چھلانگ لگا دی جبکہ گیٹ نمبر اڑتالیس، باون، تریپن، چون زخمی ہو گئے۔
سوشل میڈیا پر ہا ہا کار مچ گئی۔ تحقیقاتی کمیٹی قائم ہو گئی۔ چینی ماہرین موقع پر پہنچ گئے۔ حزبِ اختلاف نے کرپشن، بدانتظامی اور غفلت کے غل کا الاؤ جلا کے ہاتھ تاپنے شروع کر دئیے۔ عین خریف کی فصل کے موقع پر بیراج کی سات نہروں میں پانی کی ترسیل معطل ہونے سے کسانوں کو ڈراؤنے خواب آنے لگے۔ بالآخر نو دن رات کی محنت کے بعد دو نئے گیٹ اپنی جگہ نصب کر دئیے گئے اور زخمی گیٹوں کی بھی مرمت کر دی گئی اور نہروں میں پانی چھوڑ دیا گیا۔
اب اس مرمت کی اصل آزمائش چند دن بعد شروع ہو گی جب سیلابی پانی کی آمد ہوگی اور اس بوڑھے بیراج کو ایک بار پھر اپنی بچی کھچی طاقت جمع کر کے پانی کی ناقابلِ برداشت مقدار ایک بار پھر بخیریت گزارنا پڑے گی۔
یہ بوڑھا جو بانوے برس سے مسلسل اپنے لاکھوں کسان بچوں کو نوالے فراہم کر رہا ہے۔ اسے بھی ان برسوں میں بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ اس کے بچوں کو اس احسان کا ذرا بھی پاس نہیں۔ وہ اب بھی اس بیراج کی چیخ پکار سننے کا مطلب سمجھنے کے بجائے ایک سٹھیائے ہوئے بڈھے کا ہذیان سمجھ رہے ہیں۔مگر بیراج تو اپنی طبعی عمر پوری کر چکا۔ اب وہ بس اس انتظار میں ہے کہ کسی بھی برس کوئی غیر معمولی سیلاب اسے اپنے ساتھ لے جائے اور اس کی ابتلا ختم ہو۔
بانوے برس کے لائیڈز بیراج کے دو چھوٹے بھائی بھی ہیں۔کوٹری بیراج کی عمر چھیاسٹھ برس اور گدو بیراج کی عمر اکسٹھ برس ہو چکی ہے۔ جب بڑے بھائی کا کوئی پرسانِ حال نہیں تو چھوٹوں کو کون پوچھتا ہے۔
ویسے بھی جو ریاست اس وقت پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس لاد کے، آئی ایم ایف کے آگے کشکول پھیلا کے اور تین دوست ممالک کے قرضوں اور ڈپازٹس پر جی رہی ہو اور خود اس کی گردن بھی بمشکل معاشی دلدل سے باہر نکلی ہوئی ہو۔ ایسی ریاست سے تو ایک عام شہری کو بھی کوئی امید نہیں۔چہ جائیکہ کوئی ڈیم یا بیراج اس کی جانب اپنی دیکھ بھال کے لیے دیکھ سکے۔
وہ الگ بات کہ آبپاشی کے محکمے کا اپنا بجٹ کئی ارب روپے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس بجٹ کو آتا تو ہر بار دیکھا گیا ہے مگر جاتا کہاں ہے یہ کوئی ٹھیک سے نہیں بتا سکتا۔